1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوش ہوں کہ سگریٹ پینے کا انتخاب کر سکتی ہوں، سعودی خاتون

16 فروری 2020

سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی عمل سے خواتین سب سے زیادہ خوش ہیں۔ خواتین نے اس آزادی کے نیتجے میں کھلے عام سگریٹ نوشی کا لطف بھی لینا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Xr8R
Saudi-Arabien Frauen meiden Abaya-Robe mit Vollverschleierung
تصویر: AFP/F. Nureldine

بیسویں صدی کی یورپی خواتین کی طرح سعودی خواتین میں اصلاحات کے نتیجے میں ملنے والی رعایتوں کے بعد خاص طور پر کھلے عام سگریٹ نوشی شروع کر دی ہے۔ سبھی سعودی خواتین ایسا نہیں کرتیں لیکن تعلیم یافتہ اور لبرل سوچ کی حامل نوجوان خواتین کو یہ مرغوب ہے۔ کئی خواتین ای سگریٹ کے ساتھ ساتھ شیشے کا بھی لطف اٹھاتی ہیں۔ یورپ میں سگریٹ نوشی کو نسائی آزادی کی علامت کے طور پر لیا گیا تھا۔

ایسی ہی ایک سعودی خاتون ریما کو کھلے عام سگریٹ نوشی کرنے پر بے پناہ مسرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے دارالحکومت ریاض کے اشرافیہ والے علاقے میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہ حال ہی میں ملنے والی آزادی کا پورا لطف لینا چاہتی ہیں اور اس آزادی ہی کی وجہ سے وہ اس طرح سگریٹ پینے میں بہت خوشی حاصل کر پائی ہیں۔

Reema Bandar Al Saud | saudische Prinzessin
سعودی عرب کی ایک وزیر ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/N. El-Sherif

حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کے عوامی مقامات پر خواتین کے سگریٹ پینے کے رجحان میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی پروگرام سے قبل اس طرح عورتوں کا سگریٹ پینا اس انتہائی قدامت پسند مسلمان ریاست میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سعودی ولی عہد اپنے ملک کا تشخص اعتدال پسند اور بزنس فرینڈلی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

سعودی عرب میں خواتین کو کاریں چلانے کی اجازت حاصل ہو چکی ہے۔ وہ کھیلوں کے مقابلے دیکھنے بھی جا سکتی ہیں۔ انہیں بالغ ہو کر کسی مرد سرپرست کے بغیر بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سعودی خواتین اس تبدیلی کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیتی ہیں۔

Saudi-Arabien Frauen meiden Abaya-Robe mit Vollverschleierung
سعودی عرب کے دارالحکومت کے ایک بازار سے گزرتی مغربی لباس میں ملبوس سعودی خاتون مناہا العتیبیتصویر: AFP/F. Nureldine

ریما نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے تاثر کو قبول کرنے سے انکار کیا لیکن انہیں اپنے خاندان کی ناراضی پر کسی حد تک فکر لاحق ہے۔ ریما کے مطابق انہوں نے تمباکو نوشی دو برس قبل شروع کی تھی۔

انہوں نے واضح کیا کہ وہ سگریٹ پینے کو ایک فرد کی آزادی کے طور پر اپنے خاندان کو قائل نہیں کر سکتیں کیونکہ انہیں کھلے عام مردوں کی طرح عورتوں کا سگریٹ پینا درست نہیں لگتا۔ ریما نے یہ گفتگو ایک فرضی نام اختیار کرتے ہوئے کی۔

Saudi-Arabien Frauen meiden Abaya-Robe mit Vollverschleierung
سعودی دارالحکومت میںمشال الجلُود نامی خاتون ایک ادارے میں ہیشومین ریسورس کی افسر ہیںتصویر: AFP/F. Nureldine

اسی طرح ایک اور سعودی نوجوان خاتون نجلا نے بھی فرضی نام کے ساتھ بتایا کہ سعودی معاشرت میں تیز تر اصلاحاتی عمل کے ساتھ ساتھ اب بھی دوہرے معیار برقرار ہیں۔ نجلا کے مطابق قدامت پسند سعودی معاشرے میں سگریٹ نوشی ایک معیوب اور بے توقیری کا عمل قرار دیا جاتا ہے۔

ریما نے یہ بھی بتایا کہ اس کی دوست کو جب سگریٹ پیتے اس کے والدین نے دیکھا تو انہیں یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ ان کی بیٹی نشے کی علت میں مبتلا ہے۔ سعودی خاتون کی دوست کو اُس کے والدین انسداد نشہ کے کلینک لے گئے تا کہ وہ تمباکو نوشی سے نجات حاصل کر سکے۔

سعودی عرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہائی اسکول تک پہنچنے والی پینسٹھ فیصد طالبات تمباکو نوشی کا شوق اپنا لیتی ہیں۔ وہ سب کچھ خفیہ انداز میں کرتی ہیں تا کہ والدین اور خاندان سے ان کی یہ عادت چھپی رہے۔ یہ بات کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی میڈیکل فیکلٹی نے اپنی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتائی ہے۔

ع ح ⁄ ا ب ا(اے ایف پی)