1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوراک میں بھی بچیوں کے ساتھ امتیازی سلوک

21 اکتوبر 2024

ہمارے معاشرے میں بہت سے والدین کی جانب سے بچپن ہی سے خوراک تک کے معاملے میں بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بعض مواقع پر تو بچیوں کے لیے یہ زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ انہیں زیادہ غذائیت فراہم کی جائے۔

https://p.dw.com/p/4m2Ed
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

یہ بات بالکل درست ہے، دنیا میں والدین سے زیادہ مخلص اور سچا تعلق اور کوئی نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے باوجود یہ بھی ہمارے سماج کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے گھرانوں میں سگے والدین بھی اپنے بچوں میں تفریق کرنے لگتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بہت سے قارئین کے لیے یہ بات اچنبھے کی ہو، لیکن یہ کہے بنا چارہ نہیں ہے کہ ایک سگی ماں بھی اپنی اولاد میں بعض اوقات فرق کرنے لگتی ہے۔ وہ کسی ایک کو زیادہ ترجیح دیتی ہے اور کسی کو زرا کم، پھر کچھ گھرانوں میں والد کی جانب سے بھی ایسے رویے دیکھنے میں آتے ہیں کہ وہ شاید ان جانے میں ہی کسی کے ساتھ نا انصافی کر جاتے ہیں۔

والدین کی جانب سے تفریق کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں، وہاں ایک بڑی اور اہم وجہ صنفی تعصب بھی ہے! جی ہاں، ہمارے ہاں والدین کی جانب سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل کسی نفرت یا بغض کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ وہ روایتی طور پر ایسا طریق اپناتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ بیٹوں کو زیادہ ترجیح دینا، ان کی ضروریات اور خواہشات کو ملحوظ خاطر رکھنا، حتی کہ بچپن ہی سے خوراک تک کے معاملے میں بیٹیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ بہت تکلیف دہ بات لگتی ہے کہ آپ کے پاس اگر تنگی ہے تو آپ بیٹا اور بیٹی کے کھانے پینے کو ایک دوسرے سے مختلف کر دیں، لیکن یہ سب ہمارے معاشرے میں جاری و ساری ہے۔ یہ طریق شہروں میں بھی کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے، جب کہ دیہاتوں میں تو یہ بہت گہرائی کے ساتھ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

ماہرین خوارک باقاعدہ اسے ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ جب وہ بچوں کی شرح اموات دیکھتے ہیں، تو انہیں پتا چلتا ہے کہ ہماری بچیاں غذائی کمی کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ گھروں میں دیدہ دانستہ ان کی غذائی ضروریات پوری نہیں کی جا رہیں۔ بعض مواقع پر تو بچیوں کے لیے یہ زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ انہیں زیادہ غذائیت فراہم کی جائے اور انہیں بیٹوں سے زیادہ بہ تر خوراک ملے، کیوں کہ ان کی جسمانی ضروریات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر بیٹے کی غذائیت میں کچھ کمی ہو گی، تو ممکن ہے کہ اسے اتنے مسائل نہ ہوں، لیکن بچیوں کو مستقبل میں اور بالخصوص بلوغت کے بعد شدید جسمانی کمزوریوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے، جو بعد میں ازدواجی زندگی اور ان کے ماں بننے کے مراحل میں ان کی جان تک چلے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں زچگی کے دوران میں ماؤں کی اموات کی شرح بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت پیدائش کے دوران اموات کی شرح ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہیں۔

 دوسری طرف اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بچوں میں غذائی قلت کے سبب ذہنی پس ماندگی کا تناسب لڑکوں میں 40.9 فیصد، جب کہ لڑکیوں میں 39.4 فیصد ہے۔ غذائیت میں کمی کے سبب پیدا ہونے والے دبلے پن کا تناسب لڑکوں میں 18.4 فیصد اور خواتین میں 17 فیصد ہے۔ ایسے ہی ناکافی خوراک کی بنا پر وزن کی کمی کا شکار تناسب بچوں میں 29.3 فیصد اور بچیوں میں 28.4 فیصد ہے۔

غذائی عدم توازن کے سبب بہت سے بچوں میں فربہی کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ موٹاپے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ لڑکوں میں 9.7 فیصد اور لڑکیوں میں 9.2 فیصد پایا جاتا ہے۔ غذائی توازن ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے ایک نا گزیر امر ہے، اسے ہمیں اپنی عام زندگی میں تو برقرار رکھنا ہی چاہیے لیکن بچوں کی معمول کی خوراک میں اس میں تمام ضروری اجزا ہونا ناگزیر ہوتے ہیں، بہ صورت دیگر انہیں جسمانی و ذہنی عوارض اور مختلف بیماریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ غذائی معاملات میں یہ تفریق صرف ناانصافی نہیں بلکہ جرم ہے، کیوں کہ ایک بچی کی جسمانی ضروریات اس سے بہتر غذا کا تقاضا کرتی ہیں، اس لیے بالخصوص متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے تمام والدین کو، جہاں مالی تنگی کے سبب غذائی کمی کے مسائل زیادہ درپیش ہوتے ہیں، یہ بات کو سمجھ لینا چاہیے۔

غذائی کمی کا مسئلہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ لڑکی کو کم تر سمجھنے کی سوچ سے جڑا ہوا ہے، جسے سماجی طور پر بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ صنف نازک کے ساتھ ابتدائی عمر سے شروع ہونے والی اس دُہری نا انصافی کا ازالہ ہو سکے، جو تا زندگی اس کے لیے مشکلات اور مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بچیوں کے اسکولوں میں بھی ایسے معائنوں کا اہتمام ہونا چاہیے، جو اوائل عمری سے ایسے بچوں کی نشان دہی کر سکے، جس سے بعد میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔