1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین گھریلو تشدد کو ایکسپوز کریں ورنہ مار مقدر ہے

22 نومبر 2024

ہمارے معاشرے میں خواتین کو یہ کلیہ ازبر کروایا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر سے تمہاری واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ ایسی دقیانوسی باتوں کو "ڈسٹ بن" کی نذر کیجئے۔ اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنائیں تاکہ وہ گھریلو تشدد کو ایکسپوز کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/4nJ0a
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

گھریلو تشدد پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے، جسے شجر ممنوعہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ جس پر بات کرنا سہل نہیں۔ جب بھی گھر کی چاردیواری میں خواتین پر تشدد کی بات ہوتی ہے تو معاشرے میں واویلا مچ جاتا ہے۔ ہر شخص اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق متاثرہ خاتون سے رنگ برنگے سوالات پوچھنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے کہ رپورٹ میں تاخیر کا سبب کیا ہے؟ ثبوت دکھاؤ۔ اف اللہ کب سے یہ تشدد سہہ رہی ہو، وغیرہ وغیرہ۔

گھریلو تشدد کے مفہوم میں بہت وسعت ہے اور کچھ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ گھریلو تشدد میں صرف مار پٹائی ہی شامل ہے حالانکہ نفسیاتی لحاظ سے اذیت دینے کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں جیسا کہ خود کو بیوی یا بچوں کو جسمانی ٹارچر کی دھمکی دینا، پالتو جانوروں، گھر جائیداد، کیاری پھولوں کو نقصان پہنچانا، مائنڈ گیمز کھیلنا، شک کرنا، خاتون کو سوشل سرکل سے دور رکھنا وغیرہ تشدد کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ جبکہ جسمانی تشدد میں بیوی کو تھپڑ رسید کرنا، جسم کے نازک حصوں کو سگریٹ سے داغنا، بال نوچنا، قینچی سے بےڈھنگے بال کاٹنا، میڈیکل عارضہ ہونے کے باوجود علاج نہ کروانا، منشیات کے استعمال پر مجبور کرنا شمار کیے جاتے ہیں۔

نیز جنسی تشدد میں بیوی کو ایسے عمل میں حصہ لینے پر مجبور کرنا کہ جب بیوی کی رضامندی شاملِ حال نہ ہو علاوہ ازیں خواتین کے لیے گھریلو معاشی تشدد وہ ہوتا ہےکہ جب کوئی ان کو کھانے پینے جیسی بنیادی چیزوں کے لیے رقم نہیں دیتا۔ گھریلو معاشرتی تشدد کے زمرے میں ایک اور چیز  کہ اگر ایک عورت اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہے تو اس پر "نو" کی قدغن لگا دی جاتی ہے۔ ایک عورت ملازمت کرنا چاہے اور اپنے بچوں کو کسی ملازمہ کے پاس چھوڑ کر جانا چاہے تو وہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ تمامتر تشدد کا شاخسانہ نہیں تو پھر اور کیا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عورت اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے کہ میں جو تنخواہ اس گھر کے اندر لے کر آ رہی ہوں تو اس پر تصرف میرا حق ہے۔ تو اس کو بھی ایک توہین آمیز جملہ تصور کرکے اس کی تنخواہ گول مال کر لینا شوہر یا سسرال والوں کی جانب سے فرضِ عین سمجھا جاتا ہے۔

ان تمام حالات کے تناظر میں یہ پراسرار راز سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستان میں گھریلو تشدد کی پردہ پوشی کیوں اور کس لیے کی جاتی ہے؟ گھریلو تشدد کا شکار خواتین مدد حاصل کرنے سے ہچکچاتی کیوں ہیں؟ اس معمے کا جواب یہی ہے کہ ہمارے ہاں گھریلو تشدد کو ایکسپوز کرنے کو "کلنک کا ٹیکہ" سمجھا جاتا ہے۔

خواتین کو رخصتی کے وقت ایک ہی کلیہ ازبر کروایا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ اٹھے یعنی واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ اگر میکے آگئی تو لوگ کیا کہیں گے۔ متاثرہ خاتون گھریلو تشدد کے خلاف والدین یا کسی دوست کو بتانے کی جسارت کر بھی لے تو دفعتاً اس کی برین واشنگ ان جملوں سے کر دی جاتی ہے، "ارے تم شوہر کو طیش مت دلاؤ، برداشت کر لو آخر وہ تمہارے سر کا سائیں ہے۔ مردوں سے بھلا کون الجھے؟۔ یہ تو روزہ مرہ کا گھریلو معاملہ ہے لہذا اس اشو کو بس دبا دو اور اپنے گھر کی عزت کو بچانے کی سعی کرو اور ذرا دھیان سے اگر پولیس اسٹیشن جانے کی کوشش ہوئی تو ہمارے خاندان کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹے گی۔"

دوسری جانب پولیس بھی گھریلو تشدد جیسے معاملے کی کھٹائی میں پڑنے سے گریز ہی کرتی ہے کہ "لو جی، یہ ایک گھریلو معاملہ ہے ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے"۔ اس کے بعد پولیس کی جانب سے بڑی سرعت سے راستہ ناپا جاتا ہے چاہے اگلے روز یہ معاملہ خبروں کی زینت بنا ہو۔

بہرکیف شعور و آگاہی کا فقدان ہی اس مسئلہ کی سنگینی کو اور زیادہ کرتا جا رہا ہے۔ متاثرہ خاتون اپنے دفاع میں ایک پروٹیکشن آرڈر فائل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر تنخواہ چھین لی گئی ہے یا طلائی زیورات یا گاڑی یا کوئی بھی مالی حق اس سے لے لیا گیا ہے تو وہ عدالت اس مظلوم خاتون کو واپس لے کر دے گی۔

گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی سیمینارز منعقد کروانا وقت کی پکار ہے۔ خواتین کے کالجوں میں گریجوایشن کے وقت ان کو یہ تمام معلومات بہم پہنچائی جا سکتی ہیں کہ اگر آپ نکاح نامے پر دستخط کر رہی ہیں تو اس نکاح میں آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ آپ خلع لے سکتی ہیں۔یہ آپشن موجود ہے کہ درندہ صفت انسان اگر زندگی کا دائرہ تنگ کر دے تو شعور ہوتے ہوئے وہ بہتری کی جانب آگے بڑھ سکتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔