1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے لیے سیاحتی سہولتوں کا فقدان

30 جولائی 2024

ملک کے زیادہ تر سیاحتی مقامات میں محفوظ اور پر سکون ماحول تو ایک طرف خواتین سیاحوں کے لیے بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4iv0J
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

دنیا میں عام طور پر جتنے موسم اور جغرافیائی خصوصیات پائی جاتی ہیں، وہ سبھی پاکستان میں موجود ہیں۔ بات سندھ کے 'گورکھ ہل اسٹیشن‘ اور صحرائے تھر سے شروع کرتے ہیں اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور پنجاب کے دریاﺅں سے آگے جنت نظیر وادیوں اور شمالی علاقہ جات کی مسحور کن رہ گزروں تک چلتے چلے جاتے ہیں، جو سارے قدرتی مناظر حسن کے دل دادہ لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک کے سیاحتی علاقوں کا مقابلہ یورپ کے حسین ترین مقامات سے کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے جغرافیے میں بہ یک وقت شدید گرمی سے لے کر سردی تک کے موسم بھی پائے جاتے ہیں، جو دنیا کے بہت کم ممالک میں ہوتے ہیں۔ اس قدر موسمی تنوع کے باوجود بھی ہمارے ہاں اس شعبے سے ریونیو حاصل کرنے کی طرف اتنی توجہ نہیں دی جاتی، جتنی دی جانی چاہیے۔ دوسری طرف ہم ملکی سیاحوں کے لیے سہولتوں کو بھی ناکافی پاتے ہیں اور جب بات خواتین کے لیے کسی خصوصی سہولت کی ہو تو بات اور بھی زیادہ تشویش ناک ہو جاتی ہے۔

چوں کہ اکثر خواتین اہل خانہ کے ساتھ ہی ان سیاحتی مقامات کا رخ کرتی ہیں، اس لیے کبھی اس پر کھل کر یا باقاعدہ طور پر آواز بلند نہیں ہوتی، ورنہ حقیت حال یہ ہے کہ خواتین کے کسی گروپ کا ان علاقوں کے رخ کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بات 'لا اینڈ آرڈر‘ سے شروع کیجیے، تو بات پھر راہ رستے سے لے کر مطلوبہ تفریحی مقام تک ان کے لیے پرسکون اور محفوظ ماحول ہی تک بات محدود نہیں رہتی، بلکہ ان کے لیے درکار پرائیوسی اور مساویانہ سہولتوں تک کے سوالات ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اب وہ چاہے بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہوں یا مری، ہنزہ اور زیارت جیسی دل فریب وادیاں، ہمیں یہاں لڑکوں کے سیاحتی گروپ تو بہت آسانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھائی دے جاتے ہیں، لیکن صنف نازک کے حوالے سے تو شاید ابھی تک کچھ بھی سوچا نہیں گیا، لہذا ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ بھئی آخر خواتین بھی لگی بندھی زندگی سے تنگ آ کر کچھ وقت کھلی فضا میں گزارنے کی خواہاں ہو سکتی ہیں، جب وہ جہاز اڑانے سے لے کر بھاری مشینری تک چلانے کے سارے کام کر رہی ہیں، تو ان کی اس سیاحتی ضرورت سے نگاہیں آخر کب تک چرائی جائیں گی؟

حقوق نسواں کے مختلف منصوبوں کے تحت ایک طرف حکومتی و نجی سطح پر خواتین کے لیے مختلف شعبوں میں خصوصی سہولتیں قائم کی جا رہی ہیں، ان کے لیے علیحدہ ٹرانسپورٹ سے لے کر ان کے لیے خصوصی اسکیمیں اور مراعات تک، الغرض ہر شعبے میں خواتین کی خود مختاری اور ترقی کے لیے بے شمار اقدام کیے جا رہے ہیں، تو سیاحت بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے، جہاں خواتین اپنی آزادی اور زندگی کی خود مختاری کا ایک کھلا ڈلا سا احساس پاتی ہیں۔ اس شعبے میں خواتین سیاحوں کے لیے راہیں ہموار کیے بغیر ملک میں خواتین کے لیے صنفی امتیاز کے خاتمے اور صنفی مساوات کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اس ضمن میں سیاحتی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے اور افراد ایک طرف خوب منافع خوری تو کرتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں وہ اتنی سہولتیں فراہم نہیں کرتے، بالخصوص خواتین کے نقطہ نگاہ سے صورت حال غیر تسلی بخش ہے، انہیں خود بھی اس حوالے سے سوچنا چاہیے اور جہاں ان نجی سیاحتی اداروں کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، وہیں عوامی شعور اجاگر کرنا بھی اشد ضروری ہے کہ جب بھی وہ کسی سیاحتی مقام کا رخ کریں، تو اس پر فضا مقام کو کم سے کم اپنی شہری زندگی کی بد عادات سے آلودہ نہ کریں، کیوں کہ اسی صفائی ستھرائی اور قدرتی حسن کی وجہ ہی سے تو وہ وہاں کا رخ کرتے ہیں، کل کو اگر وہاں گندگی کے ڈیرے ہوئے تو آپ خود بھی وہاں کا رخ کرتے ہوئے کترائیں گے۔ دوسری طرف مقامی لوگوں کی ناجائز منافع خوری کا بھی کچھ نہ کچھ علاج ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ لوگ اچھے بھلے ٹرپ کو کوفت زدہ بنا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے!

ملک میں صنف نازک کی سیاحتی سہولیات دیکھیے تو یہ کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ ہمارے ہاں تو ماﺅنٹ ایورسٹ جیسی چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ کے کارنامے کو بھی خواتین کے لیے کوہ پیمائی اور دیگر سفری اور سیاحتی سہولتوں میں اضافے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکا، جب کہ ایسا لازمی ہونا چاہیے تھا، لیکن شاید میڈیا کی ترجیحات نہ ہونے کی بنا پر بہت جلد یہ کارنامہ بھی پس منظر میں چلا گیا یا پھر ہمارے حکام بھی شاید اس جانب توجہ ہی دینا نہیں چاہتے، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس جانب مختلف سماجی اور سیاحتی تنظیمیں بھی یک سو ہوتیں اور لوگوں میں بھی اس کا شعور اجاگر کرتیں۔ کیوں کہ شاید یہ 'مدعی سست گواہ چست‘ والا معاملہ بھی تو ہے۔ ہماری خواتین یا سماجی حلقوں نے بھی اس حوالے سے خاطر خواہ آواز بلند نہیں کی ہے، اگر ایسا ہوتا تو کسی نہ کسی سطح پر اس حوالے سے کوئی نہ کوئی چارہ جوئی ہوتی، لوگ بات کرتے اور اس جانب بھی صورت حال کچھ بہ تر ہوتی، تا کہ ہماری خواتین کے مختلف ادارے اپنے طور پر آزادی سے ایسی سیاحتی سرگرمیاں انجام دے سکیں، انھیں کسی بھی قسم کا عدم تحفظ ہو اور نہ ہی کسی بنیادی سہولت کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور خواتین کی سیاحتی سہولتوں کے لیے صرف حکومتی ہی نہیں، بلکہ سیاحتی کمپنیوں سے لے کر عوامی شعور کے اجاگر کرنے تک، اس حوالے سے سہ جہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔