1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغانستان: ’عورت ہونا ایک خطرہ، ایک جرم‘

22 نومبر 2024

دنیا کی سب سے بڑی کیتھولک امدادی تنظیم میزیریور نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر افغانستان میں خواتین کی ڈرامائی صورتحال کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروائی ہے۔

https://p.dw.com/p/4nJoZ
غذا کے حصول کے لیے قطار میں کھڑی خواتین کو کنٹرول کرنے والا طالبان جنگجو
کابل میں غذا کے حصول کے لیے قطار میں کھڑی خواتین تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

بائیس نومبر کو دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے جمعے کو دنیا کی سب سے بڑی کیتھولک امدادی تنظیم Misereor نے افغانستان میں خواتین کی مدد کے لیے سیاسی اور انسانی سطح پر کوششوں کو مؤثر بنانے پر زور دیا ہے۔

خواتین کے خلاف طالبان کی تازہ ترین قانون سازی

اکتوبر میں افغانستان کی بنیاد پرست طالبان حکومت کی جانب سے ''نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے‘‘ کے نئے قانون کے تحت سخت ضوابط متعارف کروائے گئے۔ اس کے بعد سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورتحال روزانہ بنیادوں پر ڈرامائی حد تک بگڑتی جا رہی ہے۔

طالبان نے ٹی وی پر ’’زندہ چیزوں‘‘ پر پابندی کیوں لگائی؟

 افغان معاشرے میں خواتین عوامی زندگی سے بالکل باہر دھکیل دی گئی ہیں، ان پر تعلیم اور ملازمت پر پابندی عائد ہے جبکہ بہت سی خواتین تشدد، بدسلوکی اور بھوک کا شکار ہیں۔ Misereor نے جرمن وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امداد کی طلب گار خواتین تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے۔

طالبان متنازع اخلاقی قانون پر عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار

امیرہ شیریں افغانستان میں Misereor کی پروجیکٹ پارٹنر ہیں اور ان دنوں جرمنی میں ہیں۔ ان کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی آواز کو اب عوامی سطح پر مکمل طور پر دبا دیا گیا ہے۔

مزاری شریف کی ایک سڑک کنارے دیوار پر بنی پینٹنگ اس معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی علامت
طالبان نے دراصل خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں محدود کر دیا ہےتصویر: Wakil Koshar/AFP/Getty Images

وہ کہتی ہیں کہ طالبان کا مقصد دراصل خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں محدود کرنا ہے، ''طالبان کی نگاہ میں خواتین مردوں کو جنسی طور پر بے راہ روی کا شکار کرنے کا ذریعہ ہیں۔‘‘ امیرہ شیریں مزید کہتی ہیں،''جابرانہ قوانین کی گرفت خواتین کی زندگیوں پر بہت مضبوط ہے۔ وہ خواتین، جو کبھی آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کے قابل تھیں، اب اندھیروں میں اور پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ اغوا، تشدد اور یہاں تک کہ قتل کا خوف اب افغان خواتین کے مستقل ساتھی ہیں۔‘‘

طالبان کے خلاف افغان خواتین کی پہل

افغانستان میں خواتین کی صورتحال

افغانستان کے لیے Misereor کی کارکن اور ماہر انا ڈرکس مائیر کے مطابق افغان حکومت کے نئے قوانین بہت سی خواتین اور ان کے بچوں کو بھوک کا شکار کر رہے ہیں۔ بیوہ اور بچوں کی نگہداشت کرنے والی 'سنگل پیرنٹ‘ کی حیثیت سے خواتین سخت متاثر ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 97 فیصد افغان آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ 42 ملین باشندوں میں سے نصف سے زیادہ زندہ رہنے کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ یورپی عدالت انصاف نے اکتوبر میں ضمانت دی تھی کہ یورپی یونین میں تمام افغان خواتین کو سیاسی پناہ کا حق حاصل ہو گا۔

افغانستان: طالبان کی 'اخلاقی پولیس' کا خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن

افغان خواتین کا کابل میں احتجاجی مظاہرہ
طالبان کی سختیوں اور ظلم و ستم کے باوجود نوجوان افغان خواتین مظالم کے خلاف مختلف طریقوں سے اپنی احتجاجی مہم بھی جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہیںتصویر: Ghazanfar Adeli/DW

 انا ڈرکس مائیر  کہتی ہیں،''یہ صورت حال خواتین کے لیے انتہائی ڈرامائی ہونے کی انوکھی اور واضح علامت ہے۔ لیکن افغانستان سے خواتین کے لیے  فرار تقریباً ناممکن ہے۔ ان کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔‘‘

 Misereor نے جرمنی کی وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرے،''اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دائرہ کار کتنا چھوٹا ہے، افغان خواتین تک پہنچنے کے ہر موقع کا استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘

افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں جاری، اقوام متحدہ

انا ڈرکس مائیر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال، بنیادی ضروریات، تعلیمی مواقع اور مستقبل کے امکانات کو افغان خواتین کے ساتھ تعاون کے واضح اہداف کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔

ک م/ ا ا(کے این اے)