جنوبی بھارتی ریاستوں میں شرح پیدائش میں کمی کی وجوہات کیا؟
16 نومبر 2024گزشتہ برس بھارت 1.45 ارب آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے۔
کئی دہائیوں سے، ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے، اور مختلف حکومتیں اس پر قابو پانے کی ضرورت پر مسلسل زور دیتی آئی ہیں۔
2019 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے اور ریاستی حکومتوں کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔
تاہم اب بعض سیاسی رہنماوں کو اس کے برعکس دوسرا مسئلہ درپیش ہے۔ وہ شرح پیدائش میں کمی کے باعث آبادی کو مستحکم رکھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
بچوں کی پیدائش میں اضافے کی اپیل
آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ نارا چندرابابو نائیڈو، جو پہلے آبادی پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیتے تھے، حال ہی میں اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے خاندانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں۔
انہوں نے ایک قانونی تجویز بھی پیش کی ہے جس کے تحت بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے صرف وہ افراد اہل ہوں گے جن کے دو یا اس سے زائد بچے ہوں۔
چند دن بعد، تمل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے بھی نارا چندرابابو نائیڈو کے خیالات کو دہراتے ہوئے عوام سے مزید بچے پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔
شرح پیدائش میں تیزی سے کمی
1880 سے 1970 تک بھارت میں شرحِ پیدائش تقریباً یکساں رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارتی خواتین پوری زندگی میں اوسطاً 6 بچے پیدا کرتی تھیں۔
تاہم، 2022 میں یہ تعداد اوسطاً دو تک رہ گئی تھی، جو آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے درکار شرح سے کم تھی۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز میں ڈیموگرافی کے پروفیسر سری نیواس گولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یورپی ممالک جیسے فرانس اور برطانیہ کو اپنی شرحِ پیدائش کم کرنے میں 200 سال سے زیادہ کا وقت لگا، جبکہ امریکہ کو یہ عمل مکمل کرنے میں تقریباً 145 سال لگے۔ تاہم بھارت میں یہ تبدیلی صرف 45 سالوں میں آئی ہے اور جس رفتار سے آئی ہے وہ سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے بھارت میں عمر رسیدہ آبادی کا تناسب توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ اقتصادی طور پر فعال افراد کی تعداد زیادہ ہے، لیکن ضعیف افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد مستقبل میں چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔‘‘
جنوبی بھارت میں شرح پیدائش اب شمالی یورپی ممالک کے برابر
بھارت 1950 کی دہائی میں آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے قومی خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی اپنانے والا پہلا ملک تھا۔ پروفیسر سری نیواس گولی کے مطابق ’’جنوبی ریاستوں میں اس پالیسی کا سختی سے نفاذ کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں شرحِ پیدائش اتنی کم ہو چکی ہے کہ وہ یورپ کے شمالی ممالک کی شرحِ پیدائش کے برابر ہو گئی ہے۔‘‘
تاہم جنوبی بھارت کی ریاستوں اور یورپ کے شمالی ممالک کے اقتصادی حالات میں واضح فرق ہے۔ سری نیواس گولی کے مطابق، ’’فی کس آمدنی یا انسانی ترقی کے مختلف اشاریوں کے حوالے سے بھارت دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ مثال کے طور پر آندھرا پردیش کی فی کس آمدنی سویڈن کی فی کس آمدنی سے 22 گنا کم ہے۔‘‘
مزید براں، شرحِ پیدائش میں کمی ان ریاستوں کی سیاسی صورتحال پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔
تمل ناڈو اسٹیٹ پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین جے جیارنجن کا کہنا ہے کہ، ’’جنوبی بھارت میں کم شرحِ پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ ان ریاستوں کی آبادی شمالی ریاستوں کے مقابلے میں سست رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ میں نشستوں کی تقسیم اور وفاقی فنڈنگ کا انحصار آبادی کے حجم پر ہوتا ہے، اس لیے آبادی میں کمی کے نتیجے میں جنوبی ریاستوں کا سیاسی اثرورسوخ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘
سال 2025 میں بھارت میں مردم شماری کرائی جانے کی توقع ہے۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں مختلف ریاستوں کے لیے مختص نشستوں کی تعداد تبدیل ہو سکتی ہے۔
جنوبی بھارت کی کئی ریاستوں کی حکومتوں کو یہ خدشہ ہے کہ مردم شماری کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں ان کی موجود نشستیں کم ہو جائیں گی، کیونکہ ان کی آبادی اب شمالی بھارت کی کچھ ریاستوں کی نسبت کم ہو چکی ہے۔
شرح پیدائش میں اضافے سے آبادی کے مسائل کا حل ممکن؟
سری نیواس گولی کے مطابق، سیاسی رہنماؤں کی جانب سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینا شرحِ پیدائش میں کمی کے مسئلے کا مؤثر حل نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے خاندانوں کے لیے بچوں کو جدید طرزِ زندگی کے معیار کے مطابق پالنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسی لیے بہت سے جوڑے بچوں کی پیدائش کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ معاشرے میں صنفی مساوات کو یقینی بنا کر اور ایسی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے، جو ملازمت پیشہ افراد کے لیے کام اور خاندانی امور کے درمیان توازن پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں، شرح پیدائش میں کمی کو ممکن بنایا جاسکتا۔ تاہم گر اس رجحان کو فوری اور مکمل تبدیل کرنا حقیقتاً مشکل ہو گا۔
ح ف / ج ا (ڈی ڈبلیو)