جرمن ریلوے کی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال ختم
جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ کئی روزہ ہڑتال ملک کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی ڈوئچے باہن کے انجن ڈرائیوروں نے تنخواہوں میں اضافے کے معاملے میں کمپنی انتظامیہ کے ساتھ اپنے شدید اختلافات کے باعث کی تھی۔ لیکن اس وجہ سے بذریعہ ریل مال برداری کے شعبے اور کروڑوں مسافروں کو پورے ہفتے تک جن شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان کے پیش نظر ریلوے انجن ڈرائیوروں کی ٹریڈ یونین GDL کی طرف سے اتوار کی سہ پہر کہا گیا کہ اب کافی عرصے تک ایسے احتجاج سے متاثر ہونے والے ریلوے مسافروں کو کسی نئی ہڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی، جہاں یہ ہڑتال پیر چار مئی کو شروع ہوئی تھی۔ اس کا سبب انجن ڈرائیوروں کی ٹریڈ یونین کا ڈوئچے باہن کی انتظامیہ کے ساتھ کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافے اور ان کے اوقات کار سے متعلق وہ تنازعہ بنا تھا جو ابھی تک حل نہیں ہوا۔
ڈوئچے باہن یا DB کے اعلٰی عہدیداروں نے بتایا کہ یہ ہڑتال اتوار دس مئی کو عالمی وقت کے مطابق صبح سات بجے ختم ہو گئی تھی۔ اب ایک ہفتے کے تعطل کے بعد مال بردار اور مسافر ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کمپنی انتظامیہ کے بقول مسافر ریل گاڑیوں کی آمد و رفت پیر گیارہ مئی کی صبح کام کے نئے ہفتے کے آغاز تک مکمل طور پر معمول پر آ چکی ہو گی جب کہ کارگو ٹرینوں کی سروس کی مکمل بحالی آئندہ ہفتے بدھ کے دن تک ممکن ہو سکے گی۔
ڈوئچے باہن کے انجن ڈرائیوروں کی تنظیم کے فیصلے پر اس ٹریڈ یونین کے رکن ملازمین گزشتہ برس جولائی سے اب تک مجموعی طور پر سات بار احتجاجی ہڑتال کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ یہ ہڑتال جرمن تاریخ کی طویل ترین ہڑتال تھی۔ ان ہڑتالوں کے نتیجے میں کمپنی کو 200 ملین یورو یا قریب 225 ملین امریکی ڈالر کے برابر کاروباری نقصان ہوا۔
ڈوئچے باہن یا جرمن ریلوے کہلانے والی اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد تین لاکھ ہے۔ اس ادارے کی کارگو ٹرینیں روزانہ بنیادوں پر چھ لاکھ سات ہزار ٹن کارگو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں جبکہ اس کی انٹرسٹی اور علاقائی ٹرینوں کے ذریعے ہر روز سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی قریب 5.5 ملین یا 55 لاکھ رہتی ہے۔