1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی: بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ

13 جولائی 2024

جرمنی میں گزشتہ برس بچوں اور نوجوانوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی تعداد میں سالانہ بنیادوں پر واضح اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی جرمن دفتر بی کے اے کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4i356
سن 2023 میں بچوں کے جنسی استحصال کے 16,375واقعات رپورٹ ہوئے
سن 2023 میں بچوں کے جنسی استحصال کے 16,375واقعات رپورٹ ہوئےتصویر: Gareth Fuller/empics/picture alliance

جرمن دارالحکومت برلن میں جاری ہونے والی اس پولیس رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس قسم کے جرائم کی اصل تعداد رپورٹ ہونے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سن 2023 میں بچوں کے جنسی استحصال کے 16,375واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ تعداد سن 2022  کے مقابلے5.5 فیصد زیادہ بنتی ہے۔

 اسی عرصے میں نوجوانوں کے خلاف جنسی جرائم کے 1200 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جرمن حکام کو بین الاقوامی تعاون کے ذریعے بیرون ملک تحقیقاتی اداروں سے بھی ایسے واقعات، جن میں بچوں کے جنسی استحصال کی تصویر کشی بھی شامل ہے، کے حوالے سے معلومات موصول ہوئیں۔ اسی وجہ سے ایسے واقعات کی شرح میں 7.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ تعداد بڑھ کر 45,000 تک جا پہنچی۔            

سن 2023 میں بچوں کے جنسی استحصال کے 16,375واقعات رپورٹ ہوئے
سن 2023 میں بچوں کے جنسی استحصال کے 16,375واقعات رپورٹ ہوئےتصویر: Arne Dedert/dpa/picture alliance

پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں زیادہ جرائم والے علاقوں میں پولیس کی سرگرمیاں تیز کر دی گئیں ہیں۔

تین سو ملین سے زائد بچے آن لائن جنسی استحصال کا شکار

تاہم ان اعداد وشمار میں وہ کیسز شامل نہیں ہیں، جن میں اطلاعات موصول ہونے کے بعد جائے وقوعہ کی نشاندہی نہیں کی جا سکی، خاص طور پر ایسے واقعات، جن کے حوالے سے جرمن حکام کو اطلاعات امریکی تحقیقاتی اداروں سے موصول ہوئیں۔ ایسے کیسز کی تحقیقات میں کبھی کبھار ناکامی کی وجہ پولیس کے پاس مشتبہ افراد کے موبائل ڈیٹا یا آئی پی ایڈریسز کی معلومات کا نہ ہونا بھی ہے۔

بچوں کو جنسی استحصال سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

قانونی تبدیلیوں کے باعث اب جرمن مواصلاتی اداروں کو اس طرز کی معلومات کو مخصوص مدت کے لیے ریکارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جس کے باعث پولیس کے پاس ملزمان کی آن لائن سرگرمیوں کو سمجھنے اور ان تک رسائی کے لیے ضروری معلومات دستیاب نہیں ہو پاتیں۔

 رپورٹ کے مطابق جنسی استحصال کا شکار بچوں اور نوجوانوں کی تصاویر اور وڈیوز کو انٹرنیٹ پر  بھی متعدد بار شیئر کیا گیا۔

ح ف / ا ا (ڈی پے اے)