1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھیلیسیمیا کا عالمی دن: پاکستان میں صورت حال تشویشناک

عنبرین فاطمہ، کراچی7 مئی 2015

ہر سال آٹھ مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا سے متعلق آگہی اور اس بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس مرض کے حوالے سے صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔

https://p.dw.com/p/1FMKs
تصویر: DW/D. Baber

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو والدین سے اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی خون میں شامل سرخ خلیوں کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے کسی بھی مریض کو وقفے وقفے سے خون کی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

تھیلیسیمیا کی اقسام

جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں، جنہیں اَیلفا تھیلیسیمیا اور بِیٹا تھیلیسیمیا کے نام دیے جاتے ہیں۔ اس بیماری کی یہ دونوں اقسام خون میں ہیموگلوبن کی مختلف قسموں کی کمی کے باعث لاحق ہوتی ہیں۔ اس مرض کی پہلی قسم کے مقابلے میں پاکستان میں بِیٹا تھیلیسیمیا کے مریض کہیں زیادہ تعداد میں ہیں۔

تھیلیسیمیا سوسائٹی آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر عبدالمنعم خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شدت کے لحاظ سے اس مرض کی تین قسمیں ہیں، ’’بِیٹا تھیلیسیمیا کو عام زبان میں ’بڑا تھیلیسیمیا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مریض کو ہر دو سے چار ہفتے بعد انتقال خون کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہتا ہے۔ دوسری قسم ’تھیلیسیمیا کیریئر‘ ہے، جسے بالعموم ’چھوٹا تھیلیسیمیا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کو انتقال خون کی اس طرح ضرورت نہیں پڑتی، جس طرح میجر تھیلیسیمیا کے کسی مریض کو۔ اس میں اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب تھیلیسیمیا کے دو مریض آپس میں شادی کر لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس بات کے پچیس فیصد تک امکانات ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد میجر تھیلیسیمیا کا شکار ہو گی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے والدین کا بچہ بھی اس بیماری کا کیریئر ہو۔‘‘

عبدالمنعم خان کے مطابق اس مرض کی ایک درمیانی شدت والی قسم بھی ہوتی ہے، جسے انٹرمیڈیٹ تھیلیسیمیا کہا جاتا ہے: ’’اس مرض کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ دو سے تین ماہ کی عمر تک تو نارمل رہتا ہے لیکن پھر اس کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے جسم میں خون کے سرخ خلیے بننے کا عمل سست پڑتا چلا جاتا ہے۔ بچے کو بھوک بھی کم لگتی ہے اور وہ کمزوری کا شکار بھی رہتا ہے۔‘‘

Thalassämie Patienten in Peshawar, Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

پاکستان میں صورتحال تشویشناک

ڈاکٹر عبدالمنعم خان کے مطابق پاکستان میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے صورت حال خاصی تشویشناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں ہر سو میں سے چھ افراد تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں۔ بدقسمتی سے اس بارے میں کوئی باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے کتنے مریض موجود ہیں۔ لیکن عمومی اندازہ ہے پاکستان میں سالانہ قریب بارہ ہزار بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال آٹھ مئی کو اس مرض سے متعلق آگہی کا عالمی دن منایا تو جاتا ہے لیکن اس سے جڑے مثبت اثرات کا نتیجہ اس مرض میں مبتلا بچوں کی پیدائش میں کمی کی صورت میں دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر عبدالمنعم کہتے ہیں کہ اس مرض میں اضافے کو روکنے کے لیے عوام کو اپنی سطح پر ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ تب ہی اس موروثی مرض کے ‌خلاف جنگ کامیاب ہو سکے گی۔ ’’میں لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ جو لوگ بھی شادی کرنے والے ہوں، وہ تھیلیسیمیا کیریئر اسکیننگ کا اپنا چھوٹا سا بلڈ ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اگر وہ کیریئر ہیں، تو ان کا آپس میں شادی نہ کرنا بہتر ہو گا۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ایسے دو انسانوں کی شادی ہو بھی جاتی ہے، تو بچے کی پیدائش سے پہلے ٹیسٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ ایک خاص ٹیسٹ کے ذریعے حمل کے بارہویں ہفتے میں پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں پیدا ہونے والا پیدا ہونے والا تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوگا یا نہیں۔‘‘

ماہرین کے مطابق اگر تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو مناسب علاج اور بروقت انتقال خون کی سہولت دستیاب رہے تو وہ بھی بالکل عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں خون کی تبدیلی کے بعد جسم میں جمع ہونے والے اضافی فولاد کے اخراج کے لیے جو ادویات لازمی طور پر درکار ہوتی ہیں، وہ بھی مستقل میسر رہنی چاہییں۔ پاکستان میں ایسے کسی مریض کے علاج پر ماہانہ دس ہزار سے لے کر پندرہ ہزار روپے تک لاگت آتی ہے اور یہ علاج زندگی بھر کرانا پڑتا ہے۔