1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تنہائی بھی ایک قسم کا تشدد ہی ہے‘ اسیر صحافی ڈینیز یوچیل

5 مارچ 2017

ترکی میں زیر حراست جرمن اخبار ڈی ویلٹ کے نامہ نگار ڈینیز یوچیل کا ایک نیا پیغام سامنے آیا ہے۔ اس پیغام میں انہوں نے قید کے دوران کے حالات بیان کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YfTF
Deniz Yücel
تصویر: picture-alliance/Eventpress

ڈینیز یوچیل نے اپنے پیغام میں کہا، ’’میرے ساتھ بہت اچھا سلوک تو روا رکھا گیا ہے لیکن تنہائی بھی تشدد کی ایک قسم ہی ہے۔‘‘ تینتالیس سالہ یوچیل نے یہ پیغام اپنے ادارے اخبار ڈی ویلٹ کے نام لکھا ہے، جسے آج اس اخبار کی آن لائن اشاعت میں پڑھا جا سکتا ہے۔

صحافی ڈینیز یوچیل کو استنبول کی سیلیوری جیل کی ایک کوٹھری میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اپنا یہ پیغام حزب اختلاف کی ترک جماعت ’سی ایچ پی‘ کی ایک رکن پارلیمان شفق پاوی کو لکھوایا۔ شفق ان سے ملنے کے لیے جیل گئی تھیں۔ یوچیل کے بقول، ’’یہ ایک چھوٹی سے کوٹھری ہے جس کا رقبہ محض چار ضرب چار میٹر ہے اور کھڑکی سے مجھے صرف ایک اونچی دیوار دکھائی دیتی ہے جو کم از کم چھ میٹر بلند ہے۔‘‘

Deutschland | Demo für die Freilassung von Welt-Korrespondent Deniz Yücel
تصویر: Reuters/F. Bensch

یوچیل چاہتے تھے کہ ان کا یہ خط جرمن زبان میں لکھا جائے تاہم جیل حکام نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس خط میں انہوں نے مزید لکھا کہ وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بالکل ٹھیک ہیں۔ سیلیوری کی اس جیل میں کئی اور ترک صحافی بھی قید ہیں۔ ڈینیز یوچیل کی طرح ان میں سے زیادہ تر صحافیوں پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام کو بھڑکانے کے الزامات ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے ایک تازہ بیان میں یوچیل کو ’جاسوس‘ قرار دیا تھا۔ ترک صدر کے مطابق یوچیل جرمنی کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ان کے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ساتھ روابط بھی ہیں۔ ایردوآن کے بقول یوچیل اپنی گرفتاری سے قبل ایک ماہ تک جرمن سفارت خانے میں چھپے ہوئے تھے۔ جرمن وزارت خارجہ نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

ڈینیز یوچیل کو چودہ فروری کو استنبول سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس سے قبل بھی صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے ہیں۔