1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تمہیں پاکستان سے خرید کر لایا ہوں، جسم فروشی کرو‘

17 جون 2019

پہلے تو نتاشہ اپنے والدین کو بتا ہی نہیں سکی کہ اسے چین میں کیا کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ اس جیسی دیگر سات نوجوان پاکستانی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان سے جسم فروشی کرائی گئی۔ ان میں سے چار ابھی تک چین میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3KbOk
Pakistan China Kinderheirat
تصویر: Privat

انیس سالہ نتاشہ مسیح پہلے پہل تو ٹیلی فون پر اپنے والدین کو یہی کہتی رہی کہ اس کا خاوند اس پر تشدد کرتا ہے لہذا اسے واپس پاکستان بلا لیا جائے لیکن ایک دن وہ زور زور سے رونے لگی اور اس نے ہمت کرتے ہوئے اپنی والدہ کو تمام کہانی سنا دی۔ اس کے چینی خاوند نے اسے چین کے ایک دور دراز کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل میں رکھا ہوا تھا اور اسے گزشتہ کئی ہفتوں سے مختلف مردوں کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ نتاشہ کے مطابق اس کے چینی شوہر کا کہنا تھا، ''میں تمہیں پاکستان سے خرید کر لایا ہوں اور اب تم میری ملکیت ہو۔‘‘

اس کے بعد نتاشہ کی والدہ نے ان قریبی افراد سے رابطہ کیا، جو اسے بچا سکتے تھے۔ ان میں فیصل آباد کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے چرچ کی انتظامیہ بھی شامل تھی۔ نتاشہ کا بھی ان سینکڑوں پاکستانی لڑکیوں میں سے ایک ہے، جن کی شادیاں حالیہ چند برسوں کے دوران چینی مردوں سے کی گئیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس طرح زیادہ تر مسیحی لڑکیوں کی باقاعدہ شادیاں ہوئیں، جس کے لیے مسیحی پادری اور چینی بروکر مل کر کام کرتے تھے۔

Pakistan China Zwangsheirat Interview Natasha Masih
انیس سالہ نتاشہ مسیح پہلے پہل تو ٹیلی فون پر اپنے والدین کو یہی کہتی رہی کہ اس کا خاوند اس پر تشدد کرتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

ایسے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد سے پاکستانی ادارے بھی اپنی تحقیقات کا سلسلہ شروع رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے متعدد چینی اور پاکستانی شہریوں کو گرفتار بھی کر رکھا ہے۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ نے نیوز ایجنسی اے پی نے پاکستان کی ایسی سات نوجوان لڑکیوں سے گفتگو کی ہے، جنہیں چین میں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے چار ابھی تک چین ہی میں ہیں۔

پاکستانی لڑکیوں کے والدین کو یہی کہا جاتا تھا کہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں امیر چینی شہریوں سے ہو رہی ہیں۔ اس طرح والدین کو اچھی خاصی رقم بھی ادا کی جاتی تھی لیکن تفتیش کاروں کے مطابق ان میں سے اکثر لڑکیوں سے جسم فروشی کروائی گئی۔ تحقیقات میں شامل ایک پاکستانی اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''جن لڑکیوں سے گفتگو کی گئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان لڑکیوں کو اپنے خاندانوں کا بھی خوف تھا کہ وہ کوئی غلطی نہ کریں اور گھر والے انہیں ہی برا نہ سمجھیں۔‘‘

اے پی کے مطابق سرکاری سطح پر پاکستانی حکام ابھی تک اس حوالے سے خاموش ہیں کیوں کہ بظاہر اسلام آباد حکومت چین کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی مسیحی کمیونٹی کے ایک کارکن سلیم اقبال کا کہنا تھا، ''ہم شواہد پیش کر رہے ہیں لیکن چین ابھی تک یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ پاکستان میں تعینات چینی سفیر کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی، جس میں ایک پاکستانی لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے ہمراہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی ہے۔

جسم فروشی کے لیے پاکستانی لڑکیوں کی اسمگلنگ، آٹھ چینی شہری گرفتار

نیوز ایجنسی اے پی نے ٹیلی فون پر ایک دوسری لڑکی عروج سے بھی بات چیت کی ہے، جو ابھی تک چین میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ اس لڑکی کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کا خاوند بہت زیادہ شراب پیتا ہے اور اسے اپنے دوستوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کئی دیگر پاکستانی لڑکیوں کی طرح عروج کو ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کی وہ چین میں کس مقام پر رہ رہی ہے۔ بیجنگ اترنے کے بعد ان لڑکیوں کو ڈومیسٹک فلائٹس کے ذریعے دور دراز کے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے۔

صوبہ پنجاب میں اقلیتوں اور انسانی حقوق کے صوبائی وزیر اعجاز عالم آگسٹن کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ پانچ سو سے زائد پاکستانی لڑکیاں چین اسمگل کی گئیں لیکن سلیم اقبال کے مطابق ان لڑکیوں کی تعداد سات سو پچاس سے ایک ہزار کے درمیان ہے۔

چین اسمگل کی جانے والی ایک لڑکی سمیرا کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہ کئی ماہ اس حوالے سے خاموش ہی رہی لیکن پھر اس نے تفتیش کاروں کو ساری معلومات فراہم کر دیں، ''میں نے اپنی خاموشی اس وجہ سے توڑی کہ شاید میری وجہ سے کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے۔‘‘

سمیرا گوجرانوالہ میں اب ایک بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا، ''میں بہت ہی خوفزدہ تھی، مجھے اپنے بھائیوں کا ڈر تھا۔ اب میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا ہے، وہ کسی دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔‘‘

نتاشہ گزشتہ ہفتے ہی بیس برس کی ہوئی ہے۔ وہ پاکستانی تفتیش کاروں کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ نتاشہ کا کہنا تھا، ''میں خوش قسمت ہوں۔ بہت سی لڑکیاں ابھی تک وہاں ہی ہیں اور ان کی زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہو گی۔ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ غلامی اور آزادی میں کیا فرق ہے۔ وہاں میرے ساتھ غلاموں جیسا سلوک ہوتا تھا۔‘‘

ا ا / ا ب ا ( اے پی)