1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتترکی

ترکی میں مہنگائی عروج پر، لیرا کی قدر میں ’تاریخی کمی‘

18 نومبر 2021

ترکی کے مرکزی بینک نے صدر رجب طیب ایردوآن کے دباؤ کے بعد مسلسل تیسرے مہینے بھی شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے اور نتیجے کے طور پر ترک کرنسی لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/439U9
Türkei Währung
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

ترکی کے مرکزی بینک نے افراط زر اور تیزی سے گرتی ہوئی کرنسی کی قدر کے باوجود پالیسی ریٹ کو سولہ سے کم کرتے ہوئے پندرہ فیصد کر دیا ہے۔ لیرا کی موجودہ کارکردگی اور قدر کے حوالے سے سن دو ہزار اکیس میں اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں کی بدترین کرنسی قرار دے دیا گیا ہے۔

مرکزی بینک کے اعلان سے پہلے ہی لیرا کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے میں 10.98 کی سطح پر پہنچ گئی تھی اور یہ لیرا کی اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

ترک صدر ملک میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے بلند شرح سود کے واضح مخالف ہیں اور انہوں نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ شرح سود میں مزید کمی لائیں گے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ''جب تک میں اس پوزیشن پر ہوں، میں (زیادہ) شرح سود کے خلاف لڑتا رہوں گا، میں مہنگائی کے خلاف بھی لڑتا رہوں گا۔‘‘

Kommunalwahlen Türkei
تصویر: picture-alliance/AP Photo

مہنگائی عروج پر

رواں سال کے آغاز سے ترک کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی تیس فیصد قدر کھو چکی ہے جبکہ سالانہ افراط زر کی شرح تقریباً 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح حکومتی ہدف سے چار گنا زیادہ بنتی ہے۔ ترک باشندے لیرا کو غیر ملکی کرنسیوں اور سونے میں تبدیل کر رہے ہیں تاکہ اپنی کم ہوتی بچت کو محفوظ رکھ سکیں۔

 ترکی کی معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافی اکریم اکیچی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سے ترک عوام میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''جب آپ اپنے ملک کی کرنسی کو تیزی سے گرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ چیزیں قابو سے باہر چکی ہیں۔‘‘

ان کا ترک صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ زیادہ شرح سود کو مہنگائی کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں اور ان کی یہ پالیسی روایتی معاشی نظریات سے متصادم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''جب شرح سود بڑھ جاتی ہے تو قرض لینے میں کمی آتی ہے، جس سے صارفین کم خرچ کرتے ہیں اور مہنگائی رکتی ہے۔‘‘

 اکریم اکیچی کے مطابق ترکی میں انتخابات تو سن دو ہزار تئیس میں ہونے ہیں لیکن آج کے عوامی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ترک صدر کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے۔

 ا ا / ع ح ( ڈی ڈبلیو، اے ایف پی)