'بھارت ہندوؤں پر حملوں کے مبالغہ آمیز دعوے کر رہا ہے'، یونس
6 ستمبر 2024بنگلہ دیش میں جمعرات کے روز دسیوں ہزار طلباء اور حامیوں نے ایک ماہ قبل ملک کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کا جشن منانے کے لیے دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکوں پر مارچ کیا۔
بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان مستعفی ہو گئے
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ پر تشدد مظاہروں کے دوران پانچ اگست کو مستعفی ہونے کے بعد بھارت فرار ہو گئی تھیں۔
ادھر ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے بھی جمعرات کے روز کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے اور انہیں نشانہ بنانے سے متعلق بھارت 'مبالغہ آمیز' دعوے کرنے کے ساتھ ہی انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت والی بھارت کی این ڈی اے حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتی برادری پر ہونے والے مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ بیانات بھی دیتے رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے صدر نے بنگلہ دیشی قیدیوں کو معاف کر دیا
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا کہ مودی کی طرف سے "مبالغہ آرائی" کی جا رہی ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات چیت میں یونس نے کہا، "یہ بیشتر حملے سیاسی نوعیت کے ہیں فرقہ وارانہ نہیں ہیں۔ اور بھارت ان واقعات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ ہم نے تو یہ نہیں کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہم نے کہا ہے کہ ہم (ان پر قابو اپنے کے لیے) سب کچھ کر رہے ہیں۔"
شیخ حسینہ بھارت کے لیے سر درد بن گئی ہیں
عبوری حکومت کے یہ بیانات بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کے عکاس ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 140 کروڑ بھارتی شہری بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہیں۔
شیخ حسینہ کو ایک اور دھچکا، پورے خاندان کو حاصل خصوصی سکیورٹی ختم
اس دوران بھارت میں ہندوؤں کے متعدد مذہبی گروپوں اور پیشواؤں نے بھی مودی سے ملاقات کر کے بنگلہ دیش میں مبینہ حملوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ
بنگلہ دیش کے مسلمان اس بات سے بھی سخت نالاں ہیں کہ بھارت، جس کے ساتھ بنگلہ دیش کی 4,096 کلومیٹر طویل سرحد ہے، نے حسینہ کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رکھی ہے۔
جمعرات کے روز کی تقریب کا نام "شہداء کے لیے مارچ" رکھا گیا۔ شیخ حسینہ کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران ہونے والے مظاہروں میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، اسی مناسبت اس کا نام شہداء کے لیے مارچ تھا۔
مارچ کرنے والوں نے بنگلہ دیشی اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور وہ "شہیدوں کا خون ہماری طاقت ہے" اور "حسینہ کو پھانسی دو" جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
اس دوران بنگلہ دیش کی طلبہ تنظیموں نے شیخ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کو بھارت سے واپس لانے کا مطالبہ کیا تاکہ گزشتہ ماہ کے تشدد اور قتل سے متعلق ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔
بنگلہ دیش: عبوری حکومت نے جماعت اسلامی پر عائد پابندی اٹھا لی
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ حکومت مخالف زبردست پرتشدد مظاہروں کے بعد مجبوراً پانچ اگست کو فرار ہو کر پڑوسی ملک بھارت پہنچی تھیں، تب سے یہیں مقیم ہیں۔
'بھارت کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا'
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اس تصور کو سختی سے مسترد کر دیا کہ شیخ حسینہ کے بغیر بنگلہ دیش افغانستان میں تبدیل ہو جائے گا۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اس بیانیے کو ترک کرے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرے۔
انہوں نے کہا، "آگے کا راستہ بھارت کے اس بیانیے سے باہر نکلنا ہے۔ بیانیہ یہ ہے کہ سبھی اسلام پسند ہیں، بی این پی اسلام پسند ہے اور باقی سب اسلام پسند ہیں، جو اس ملک کو افغانستان بنا دیں گے۔ اور بنگلہ دیش صرف شیخ حسینہ کے پاس ہی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ بھارت اسی بیانیے کے سحر میں گرفتار ہے۔ بھارت کو اس بیانیے سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ایک پڑوسی ملک ہے۔"
نگراں حکومت نے بھارت کو واضح طور پر یہ بھی بتا دیا کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اس وقت تک پوری طرح سے خاموش رہنا چاہیے، جب تک بنگلہ دیش بھارت سے ان کی حوالگی کی درخواست نہیں کرتا۔
محمد یونس نے کہا، "اگر بھارت انہیں اس وقت تک رکھنا چاہتا ہے، جب تک کہ بنگلہ دیش کی (حکومت) انہیں واپس نہیں چاہتی، تو شرط یہ ہے کہ انہیں خاموش رہنا پڑے گا۔"
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)