بھارت: دی قندھار ہائی جیک سیریز پر تنازعہ کیا ہے؟
2 ستمبر 2024بھارتی حکومت نے ایک مقبول ویب سیریز 'آئی سی 814 دی قندھار ہائی جیک' کے حوالے سے ہونے والے تنازعے پر نیٹ فلکس کے بھارتی سربراہ کو طلب کیا ہے۔ اس ویب سیریز میں سن 1999 میں عسکریت پسندوں کے ذریعے انڈین ایئر لائنز کی ایک پرواز کے ہائی جیکنگ کے اصل واقعات پر مبنی ہے۔
مودی حکومت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت نے بھارت میں نیٹ فلکس کے مواد کی سربراہ مونیکا شیرگل کو ہدایت کی ہے کہ وہ ویب سیریز کے مبینہ متنازعہ پہلوؤں پر وضاحت پیش کرنے کے لیے منگل تین ستمبر کو حکام کے سامنے پیش ہوں۔
مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے یہ سمن اس وقت آیا، جب سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین نے ویب سیریز بنانے والوں پر ہائی جیکروں کے ناموں کو دانستہ طور پر "بھولا" اور "شنکر" میں تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اس ویب سیریز کو انوبھو سنہا اور تریشانت سریواستو نے بنائی ہے، جو ایک کتاب 'فلائٹ انٹو فیئر: دی کیپٹن اسٹوری' پر مبنی ہے۔ یہ کتاب مذکورہ فلائٹ کے کیپٹن دیوی شرن اور صحافی سرنجئے چودھری نے لکھی تھی۔ اس میں نصیر الدین شاہ، وجے ورما اور پنکج کپور جیسے اداکاروں نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔
تنازعہ کس بات پر ہے؟
اس سیریز میں ہائی جیکرز کے نام، چیف، ڈاکٹر، برگر، بھولا اور شنکر کے ان کوڈ ناموں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو اصل میں وہ مذکورہ فلائٹ پر استعمال کر رہے تھے۔
تاہم بھارت میں بعض حلقوں نے بھولا اور شنکر کے ناموں کے استعمال پر تنقید کی اور فلم سازوں پر دانستہ طور پر ہندو ناموں کا انتخاب کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سیریز میں حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور ممکنہ طور پر مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔
اس پر آن لائن بحث بھی چھڑ گئی اور بعض نے تو سیریز کے ڈائریکٹر انوبھو سنہا پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام بھی لگایا۔
اس بحث کا آغاز بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے کیا اور ویب سیریز میں ہندو ناموں کے استعمال پر تنقید کی۔
انہوں سوشل میڈيا ایکس پر لکھا کہ بھارتی فلائٹ، " آئی سی 814 کے ہائی جیکرز خوفناک دہشت گرد تھے، جنہوں نے اپنی مسلم شناخت چھپانے کے لیے ایسے القاب استعمال کیے تھے۔ فلمساز انوبھو سنہا نے غیر مسلم ناموں کو استعمال کر کے ان کے مجرمانہ ارادوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔"
انہوں نے مزید لکھا، "نتیجہ؟ دہائیوں بعد، لوگ یہی سوچیں گے کہ ہندوؤں نے ہی اس طیارے کو ہائی جیک کیا تھا۔ یہ پاکستان کے تمام مسلمان دہشت گردوں کے جرائم کو پاک کرنے کا بائیں بازو کا ایک ایجنڈا ہے۔ یہ سنیما کی طاقت ہے، جسے کمیونسٹ شاید 70 کی دہائی سے استعمال کر رہے ہیں۔"
ہندو گروپوں کا اعتراض ہے کہ سیریز میں ہائی جیکرز کو ہندوؤں کے نام کیوں دیے گئے اور اسی وجہ سے حکومت نے نیٹ فلکس کے عہدیدار کو طلب کیا ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
ویب سیریز میں 24 دسمبر 1999 کے انڈین ایئر لائنز کی پرواز آئی سی 814 کے ہائی جیکنگ کو پیش کیا گیا ہے۔ اس طیارے میں 191 مسافر سوار تھے جسے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو ایئر پورٹ سے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد ہی پانچ ہائی جیکروں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
بعد میں اس فلائٹ کو افغانستان میں قندھار لے جانے سے پہلے اس پرواز کو امرتسر، لاہور اور دبئی کے ایئر پورٹ پر اتارا گیا تھا۔
ہائی جیکرز نے اپنے تین ساتھی عسکریت پسند مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگر کو بھارتی جیل سے رہا کرانے پر مجبور کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی حکومت نے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ان تینوں کو رہا کر دیا تھا۔
اس کے بعد جنوری سن 2000 کو مرکزی وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چھ ہائی جیکروں کے نام ابراہیم اطہر، شاہد اختر سید، احمد قاضی، مستری ظہور ابراہیم اور شاکر تھے۔
حکومت نے اسی بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ہائی جیکرز فلائٹ میں بالترتیب چیف، ڈاکٹر، برگر، بھولا اور شنکر کے نام سے جانے گئے، کیونکہ وہ انہیں ناموں سے ایک دوسرے کو مخاطب کر رہے تھے۔
متعدد صحافی، جنہوں نے سن 1999 میں ایک ہفتہ طویل ہائی جیکنگ کی کوریج کی تھی، انہوں نے بھی اس تنازعے پر سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس ڈالی ہیں اور اس میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ مسافروں نے انہیں بتایا تھا کہ ہائی جیکروں نے یہی نام ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔