1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: شاہی عیدگاہ میں بھگوان کی مورتی رکھنے کی مہم

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
29 نومبر 2021

بھارت میں سخت گیر نظریات کی حامل ہندو تنظیموں نے متھرا کی تاریخی عید گاہ میں بھگوان کرشن کی مورتی رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تنظیمیں اس تاریخی مسجد کے مقام پر بھی مندر بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/43bti
Hindus protestieren in Ayodhya, Indien
تصویر: Reuters/P. Kumar

بھارت میں سخت گیر نظریات کی حامل ہندو تنظیموں ایک بار پھر سے ریاست اتر پردیش میں تاریخی شاہی عید گاہ میں بھگوان شری کرشن کی مورتی رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد حکام نے پورے علاقے میں دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات کا اعلان کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بعض ہندو رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گيا ہے۔

ہندو تنظیموں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دور میں تعمیر ہونے والی تاریخی عیدگاہ میں چھ دسمبر کے روز مورتی رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ سن 1992 میں چھ دسمبر کے دن ہی ہندوؤں نے بابری مسجد کو بھی مسمار کر دیا تھا جہاں اب ایک مندر تعمیر ہو رہا ہے۔

حکام کا کارروائی کا وعدہ

حکام کا کہنا ہے کہ ہندو تنظیموں کے اعلان کے تناظر میں امتناعی احکامات کے تحت دفعہ 144 نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت چار افراد سے زیادہ کے اجتماع پر پابندی عائد ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نوین سنگھ چہل کا کہنا تھا، "متھرا میں کسی بھی شخص کو امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔"

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندو تنظیم 'نارینی سینا' کے ایک رہنما امت مشرا کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ چہل کے مطابق انہوں نے سینیئر حکام کے ساتھ میٹنگ میں شاہی عیدگاہ اور اس کے پاس بنے مندر کی سکیورٹی کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا ہے۔

ہندو تنظیموں کا دعوی

حکام کے مطابق سب سے پہلے 'اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا' نامی تنظیم نے مسجد کے اندر بھگوان شری کرشن کا مجسمہ رکھنے کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گيا۔ اس کے بعد اتوار کے روز ایک اور ہندو تنظیم نارینی سینا نے مسجد کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک مارچ کا اعلان کر دیا۔

ہندو مہا سبھا کا کہنا تھا کہ چھ دسمبر کے دن پہلے شاہی عید گاہ کو گنگا کے پانی سے صاف کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اس میں بھگوان شری کرشن کا کی مورتی رکھی جائے گی۔ سن 1992 میں چھ دسمبر کے دن ہی ہندوؤں نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا اور اسی مناسبت سے اس دن کا انتخاب کیا گيا ہے۔

Hindus protestieren in Ayodhya, Indien
تصویر: Reuters/P. Kumar

ہندو تنظیموں کا دعوی ہے کہ ان کے بھگوان شری کرشن اسی عید گاہ والے مقام پر پیدا ہوئے تھے اور بقول ان کے پہلے وہاں ایک مندر تھا۔ تاہم جب پولیس نے مہا سبھا کو اجازت نہیں دی، تو نارینی سینا نے مسجد کو وہاں سے ہٹانے کے مطالبے کے ساتھ ایک احتجاجی جلوس کا اعلان کر دیا جس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور سکیورٹی میں اضافے کا اعلان کیا گيا۔

شاہی عید گاہ کی تاریخ

ریاست اتر پردیش کے ضلع متھرا میں شاہی عید گاہ کی تعمیر مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے کروائی تھی جو ایک مسجد ہونے کے ساتھ عید گاہ بھی ہے اور اسی مناسبت سے اسے شاہی عید گاہ کہا جاتا ہے۔

لیکن بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیموں کا ایک زمانے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد، متھرا کی تاریخی عیدگاہ اور بنارس کی گيان واپی مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھیں، اس لیے وہ اس پر پھر سے مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان تینوں مساجد کا تعلق ریاست پو پی سے ہے۔

اس میں سے  بابری مسجد کو پہلے ہی منہدم کیا جا چکا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کی اجازت سے وہاں مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اب ان تنظیموں کی نظر متھرا کی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد پر ہے، جنہیں مغل شہنشاہ اورنگ کے دور میں تعمیر کیا گيا تھا۔

حالانکہ مسلم تنظیمیں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر ہندوؤں کے ان دعوں کو مسترد کرتی رہی ہیں اور اس کا عدالت میں بھی کیس جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو تنظیمیں کافی عرصے سے یہ مہم چلاتی رہی ہیں کہ وہ مسجد کو ہٹا کر اس مقام پر مندر تمعیر کریں گی۔

شاہی عید گاہ کے پاس ہی ایک قدیم شاندار مندر بھی قائم ہے اس کے باوجود ہندو تنظیموں کا اصرار اس بات پر ہے کہ بھگوان شری کرشن اس مقام پر پیدا ہوئے تھے جہاں اس وقت عید گاہ کے گنبد ہیں۔

بھارت میں مسجد کا تنازعہ، مذہبی کشیدگی کا خدشہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں