آپ کا بچہ کون سے سکول میں پڑھتا ہے؟ آپ کے بچے کو کتنے نمبر ملے؟ وہ پڑھائی میں کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات اور ان جیسے بہت سے سوالات سے ہر شخص آگاہ ہے لیکن جواب کیا دینا ہے، یہ بھی ایک اہم سوال بن چکا ہے۔
پاکستان میں 76 سال گزرنے کے بعد بھی نا تو امتحانات کا طریقہ کار بدلا، نا ہی بچوں کی قابلیت جاچنے کے کوئی نئے طریقے متعارف کروائے گئے۔ مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں موجود سوئی گیس کے ذخائر 75 سال سے انہیں کتابوں میں اسی حالت میں موجود ہیں، نا خزانے عوام کے کام آئے اور نا کسی طالب علم کے اور ہاں وہ قائداعظم کے اہم ترین چودہ نکات، جو ہم نے بھی رٹا لگائے تھے لیکن آج تک عملی زندگی میں کہیں وہ ہمارے کام نا آئے۔
جولائی سے ستمبر تک پاکستان میں میڑک اور انٹرمیڈیٹ کے طلباء کے نتائج، ایڈمیشن ٹیسٹ اور داخلوں کا وقت ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے والدین کی اپنے بچوں سے وابستہ توقعات نا صرف انہیں ڈپریشن میں مبتلا کرتی ہیں بلکہ نہم جماعت کے بچے بھی اپنے کم نمبروں کی بنا پر خودکشی کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم عمر طلباء میں امتحانی نتائج کی بنا پر خودکشی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اور ستم دیکھیے یہ ننھی بے گناہ جانیں بھی نا حکومت کو نیند سے جگا سکیں اور نا ہی تعلیمی اداروں کی انسانیت کو۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی تو خیر کیا کہنی مگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی پاکستان میں خوب طوطی بولتی ہے۔ پاکستان میں جس طرح کپڑوں کی سیل سے پہلے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں اور پھر سیل والے روز کپڑوں پر خوب گتھم گتھا ہوا جاتا ہے بالکل ایسا ہی نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
پوزیشن ہولڈرز کی تصویریں گیٹ کے باہر اشتہار بنا کر لگائی جاتی ہیں اور والدین پوزیشن کے چکر میں پیسے کی پرواہ کیے بغیر اپنا بچہ اس تشہیر کی نذر کر دیتے ہیں اور خواہش یہ کہ دیکھو بیٹا فرسٹ آنا، ہماری عزت اب تمہارے ہاتھ۔
کبھی کسی تعلیمی ادارے یا کسی حکومتی ادارے نے یہ تحقیق کی کہ پوزیشن لینے والے بچے زندگی کی دوڑ میں کہاں کھڑے ہیں؟ بیک بینچرز نے عملی زندگی میں کہاں سکول کی طرح صرف ناکامی دیکھی۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف جیتنا ہی کیوں سکھاتے ہیں؟ کیا کبھی والدین نے بچے کو گر کر سنبھلنا سکھانے کی کوشش کی یا کسی تعلیمی ادارے میں ہارنے والوں کی ہمت بندھانے کے لیے کسی پروگرام کا انعقاد کیا ہو اور زندگی میں بیک بینچرز کی عملی زندگی میں کامیابی کی کہانیاں سنائی ہوں؟
کیا آج پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والا ارشد ندیم بھی سکول میں پوزیشن ہولڈر تھا یا عمران خان اپنے زمانہ طالب علمی میں تعلیمی میدان میں بہت اعلی کارکردگی کا حامل رہا۔ گل جی کے ہاتھ کے بنے فن پارے مہنگے داموں بکتے تھے تو کیا وہ پوزیشن ہولڈر تھے یا پھر جان شیر خان۔ والدین خود اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو دنیا بھری ہے ایسی مثالوں سے لیکن ہم نا تو اپنا سوچ کا انداز بدلنے کو تیار ہیں اور نا ہی نصاب۔
صدیوں بعد بھی نصابی کتب کے وہی مضامین ہیں اور امتحانی پرچے میں وہی پانچ سوال لازمی حل کرنے کو آتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں آج بھی اساتذہ لائق بچے کو پسند کرتے ہیں اور ذرا کمزور بچے کو یہ ضرور جتایا جاتا ہے کہ دیکھو تم کتنے نالائق ہو کچھ دیکھو اس سے۔ او لیول کے نتائج ہی کیوں نا ہوں والدین بھی بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر اپنے بچوں کے نتائج کی تشہیر کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی نے یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پوزیشن کی اس دوڑ میں وہ بچوں کی شخصیت کو کیسے مسخ کر رہے ہیں۔
جس طرح اس دنیا میں موجود لوگوں کے فنگر پرنٹس ایک دوسرے سے مختلف ہیں بالکل اسی طرح ہر شخص کی قابلیت اور صلاحیت بھی۔ ہر بچہ ڈاکٹر، انجینیئر بننے کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ کھلاڑی بنتے ہیں، کچھ فنکار، کچھ گلوکار، کچھ شیف، کچھ بیوٹیشن، فیشن ڈیزائنر اور نا جانے کیا کیا لیکن یہاں بھی بغیر کسی جنس کے فرق کے۔ اس لیے تعلیمی اداروں سے ملنے والی یہ ڈگریاں آپ کے بچے کی قابلیت جاننے کی اہلیت بالکل نہیں رکھتی۔ آپکا بچہ آپکی توجہ، اعتماد اور یقین کا حقدار ہے نا کہ آپ کی خواہشات کا بوجھ ڈھونے کا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔