1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ

7 اگست 2024

بنگلہ دیش کے صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق ماہراقتصادیات اور سماجی رہنما محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ استعفی دے کرملک سے فرار ہو گئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/4jBkB
 شیخ حسینہ کے دیرینہ ناقد کے طور پر جانے جانے والے م‍حمد یونس نئے انتخابات کے انعقاد تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گے
شیخ حسینہ کے دیرینہ ناقد کے طور پر جانے جانے والے م‍حمد یونس نئے انتخابات کے انعقاد تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گےتصویر: Raphael Lafargue/abaca/picture alliance

 

محمد یونس کو عبوری ‍حکومت کا سربراہ بنانے کا فیصلہ فوجی سربراہان، طلبہ رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور نمایاں کاروبای شخصیات کے ایک اجلاس میں منگل کی رات کو ہوا۔

غریب ترین افراد کے بینکر اور شیخ حسینہ کے دیرینہ ناقد کے طور پر جانے جانے والے م‍حمد یونس نئے انتخابات کے انعقاد تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گے۔

سرکاری ملازمتوں اور کالجوں میں داخلوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد شیخ حسینہ کو پیر کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اپنے عہدے سے استعفی دینے کے بعد وہ ملک سے فرار ہو گئیں اور فی الحال بھارت میں قیام پذیر ہیں۔

بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا، فوجی حکام

قبل ازیں طلبہ رہنما ناہید اسلام نے کہا تھا کہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ طلبہ فوج کی قیادت یا ‍حمایت والی ‍حکومت قبول نہیں کری‍ں گے۔

 طلبہ رہنما نے کہا تھا کہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں
طلبہ رہنما نے کہا تھا کہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند ہوگئے ہیںتصویر: Munir uz Zaman/AFP/Getty Images

محمد یونس کون ہیں؟

‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍یونس شیخ حسینہ کے ایک معروف نقاد اور سیاسی مخالف ہیں۔ یونس نے شیخ حسینہ کے استعفے کو 'دوسری ملکی آزادی‘ قرار دیا تھا جبکہ شیخ حسینہ انہیں ایک بار ’خون چوسنے والا‘ کہہ چکی ہیں۔

پیشے کے لحاظ سے ماہر اقتصادیات اور بینکر یونس کو سن 2006 میں غریب لوگوں، خاص طور پر خواتین کی مدد کے لیے مائیکرو کریڈٹ کے استعمال میں پیش پیش رہنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

انہوں نے 1983 میں گرامین بینک کی بنیاد رکھی تاکہ ان کاروباری افراد کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جا سکیں جو عموماً ان قرضوں کو حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔

لوگوں کو غربت سے نکالنے میں بینک کی کامیابی نے دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کی مائیکرو فنانسنگ کی کوششوں کو جنم دیا۔

 کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد شیخ حسینہ کو پیر کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا
کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد شیخ حسینہ کو پیر کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھاتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

شیخ ‍حسینہ کے ساتھ اختلافات

سال دو ہزار آٹھ میں شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی مشکلات اس وقت پیدا ہوئیں جب ان کی انتظامیہ نے یونس کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا۔

 یونس نے 2007 میں اس وقت ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا جب ملک کو فوج کی حمایت یافتہ حکومت چلا رہی تھی۔

تحقیقات کے دوران شیخ حسینہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے گرامین بینک کے سربراہ کی حیثیت سے غریب دیہی خواتین سے قرضوں کی وصولی کے لیے طاقت اور دیگر ذرائع کا استعمال کیا۔

بنگلہ دیش میں نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس اور تین دیگر افراد کو قید کی سزائیں

ان پر 2013 میں حکومت کی اجازت کے بغیر رقم وصول کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا، جس میں ان کا نوبیل انعام اور ایک کتاب سے ملنے والی رائلٹی بھی شامل تھی۔

بعد ازاں انہیں اپنی بنائی ہوئی دیگر کمپنیوں سے متعلق مزید الزامات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں گرامین ٹیلی کام بھی شامل ہے، جو ملک کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی گرامین فون کا حصہ ہے اور جو ناروے کی ٹیلی کام کمپنی ٹیلی نار کا ماتحت ادارہ ہے۔

کیا پاکستان میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟

اس سال کے اوائل میں بنگلہ دیش میں ایک خصوصی عدالت نے یونس اور 13 دیگر افراد پر 20 لاکھ ڈالر کے غبن کے معاملے میں فرد جرم عائد کی تھی۔ یونس نے خود کو بے قصور قرار دیا اور فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

یونس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے ساتھ ان کے اختلافات کے باعث انہیں نشانہ بنایا گیا۔

بنگلہ دیش میں یونس کی مقبولیت ناقابل تردید ہے۔ نوبل انعام جیتنے کے بعد سے انہیں قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی انہیں احترام سے دیکھا جاتا ہے۔

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا

ج ا /ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)