1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتایشیا

بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ صحافی رواں برس قتل ہوئے

30 نومبر 2024

بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں صحافیوں پر کیے گئے کئی حملے ملک میں میڈیا کی غیر محفوظ صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nWnP
ڈھاکہ میں نومبر میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک شہری
بنگلہ دیش اس وقت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 165 ویں نمبر پر ہے جو ملکی تاریخ کی خراب ترین درجہ بندی ہےتصویر: Rubel Karmaker/ZUMAPRESS/picture alliance

جولائی میںڈھاکہ ٹائمز سے وابستہ صحافی مہدی حسن  کو اس وقت ہلاک گیا  جب وہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں حکومت مخالف مظاہرے کی کوریج کر رہے تھے ۔ اور اسی روز ایکتور(اکہتر) ٹی وی کی رپورٹر نادیہ شرمین پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہو گئیں۔

جولائی میں، خاص طور پر طلبہ کی قیادت میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران، میڈیا  سے وابستہ افراد پر حملوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا۔ ان مظاہروں کی شدت نے ملک میں بے چینی کو بڑھا دیا اور وزیرِاعظم شیخ حسینہ کی برطرفی کا سبب بنی۔

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے حامی صحافیوں کے خلاف مقدمات

مقامی میڈیا کے مطابق، رواں سال میں اب تک آٹھ صحافی قتل کیے جا چکے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں، جو گزشتہ دہائی میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

حکومت مخالف مظاہرے میں زخمی ہونے والوں کی تصویر
جولائی میں خاص طور پر طلبہ کی قیادت میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران میڈیا کارکنوں پر حملوں میں واضح اضافہ دیکھا گیاتصویر: DW

حفاظتی اشیاء اور تربیت کی کمی

رپورٹر نادیہ شرمین کا کہنا ہے کہ ملک گیر کریک ڈاؤن، جس کے دوران وہ زخمی ہوئیں، ان کے کیریئر کا سب سے بھیانک تجربہ تھا۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "وہ ہر جگہ لوگوں پر گولیاں چلا رہے تھے، میں خوش قسمتی سے محفوظ رہی کیونکہ میرے پاس حفاظتی سامان تھا۔ لیکن مہدی بغیر کسی حفاظتی سامان کے اس پرتشدد مظاہرے کی کوریج کر رہے تھے۔ شاید آج وہ زندہ ہوتے اگر ان کے میڈیا ہاؤس نے انہیں بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ فراہم کیا ہوتا"۔

آزادی صحافت کی حالت مزید خراب

بنگلہ دیش اس وقت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 165ویں نمبر پر ہے، جو کہ ملک کی تاریخ میں سب سے خراب درجہ بندی ہے۔

بنگلہ دیش: شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد 'رواداری' میلہ منسوخ

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے نوبل انعام یافتہ سربراہ محمد یونس
بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے نوبل انعام یافتہ سربراہ محمد یونستصویر: Abdul Saboor/REUTERS

نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے باوجود آزادی صحافت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

حکومت مخالف مظاہرین کےخلاف حسینہ حکومت کے کریک ڈاؤن میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں کئی صحافیوں کے خلاف قانونی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات شواہد پر مبنی نہیں ہیں اور یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا

عبوری حکومت کے رہنما کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت حسینہ مخالف ہنگاموں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ میڈیا تنظیموں کو صحافیوں کے تحفظ میں اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ تنازعات کے حالات میں رپورٹنگ کر رہے ہوں۔

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا

انصاف کی تلاش، ایک مشکل جدوجہد

مہدی حسن کے والد مشرف حسین نے کہا، "میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔ اور پولیس کیس درج نہیں کر رہی، حالانکہ عدالت نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں پولیس اسٹیشن کم از کم 50 بار گیا، اور انہوں نے مجھے بار بار چکر لگانے پر مجبور کیا۔

بنگلہ دیش: کیا اسلامی جماعتوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے؟

سینئر رپورٹر، مسعود کامل،  نے کہا کہ بنگلہ دیش کا انصاف کا نظام سیاسی اثرات کی وجہ سے کمزور ہے اور صحافیوں کے خاندان قانونی اخراجات برداشت نہیں کر پاتے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات غیر جانبدار نہیں ہوتیں اور مجرموں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

کامل کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو، صرف اپنے صحافتی کردار کو نبھانے کے لیے حکومت، میڈیا مالکان، غربت اور جان کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ش خ /  ج ا (افروز جہاں)

بنگلہ دیش، سیاسی کارٹون بنانے والے اب آزاد محسوس کرتے ہیں