1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: مظاہرین کے خلاف کرفیو نافذ، شہروں میں فوجی گشت

20 جولائی 2024

ہفتے کے روز کرفیو کی خلاف ورزی پر مظاہرین اور پولیس کے درمیاں جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4iXLs
 ایک ماہ سے جاری بدامنی روکنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے
ایک ماہ سے جاری بدامنی روکنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش میں جاری طلبہ کے مظاہروں کی وجہ سے دارالحکومت ڈھاکا سمیت دیگر شہروں میں پھیلنے والی بد امنی  کو روکنے کے لیے آج ہفتے کے روز  فوجی دستے سٹرکوں پر گشت کرتے دیکھے گئے۔  اس دوران حکومتی کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ بھی کی۔

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

 پولیس اور ہسپتالوں کی طرف سے دی گئی معلومات پر مبنی اور خبر رساں ادارے اے ایف کی  طرف تیار کردہ متاثرین کی فہرست کے مطابق تقریباﹰ ایک ہفتے سے جاری تشدد کے واقعات میں اب تک کم از کم 115 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں اور پولیس نے ہفتے کے روز اے ایف پی کو گزشتہ روز ہونے والی جھڑپوں میں مزید 10 اموات کی اطلاع دی، جبکہ منگل کے بعد سے جمعے تک 105 دیگر اموات کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں ۔

اطلاعات کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہیں
اطلاعات کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

ہسپتال کے عملے کی طرف سے اے ایف پی کو دی گئی تفصیلات کی بنیاد پر اس ہفتے اب تک رپورٹ ہونے والی نصف سے زیادہ اموات کی وجہ پولیس کی فائرنگ تھی۔

 انسانی حقوق کی عالمی تنظیم   ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بابو رام پنت نے ایک بیان میں کہا، ''بڑھتی ہوئی ہلاکتیں بنگلہ دیشی حکام کی جانب سے احتجاج اور اختلاف رائے کے لیے ظاہر کی گئی مطلق عدم برداشت کی ایک چونکا دینے والی فرد جرم ہے۔‘‘

  حکام نے جمعرات کو ملک بھر میں کی گئی انٹرنیٹ کی بندش کو تاحال جاری رکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا مواصلاتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ سرکاری ویب سائٹس آف لائن ہیں اور بڑے اخبارات بشمول ڈھاکہ ٹریبیون اور ڈیلی سٹار جمعرات سے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپ ڈیٹ کرنے سے قاصر ہیں۔

  بنگلہ دیش ٹیلی ویژن، ریاستی نشریاتی ادارہ بھی آف لائن ہے، جس کے ڈھاکہ میں قائم ہیڈ کوارٹر کومظاہرین نے آگ لگا دی تھی۔

حسینہ حکومت کے لیے چیلنج

جولائی کے آغاز سے جاری ان روزانہ مظاہروں میں ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں کے لیے نوکریوں کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرانے کے منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس قبل  یہ کوٹہ سسٹم   2018 میں طلبہ کے احتجاج کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیشی پولیس سرکاری ٹی وی کے مرکزی دروازے پر پہرے دے رہی ہے، ، جمعرات کو اس عمارت پر دھاوا بولنے کے بعد مظاہرین نے اس نظر آتش کرنے کی کوشش بھی کی
بنگلہ دیشی پولیس سرکاری ٹی وی کے مرکزی دروازے پر پہرے دے رہی ہے، ، جمعرات کو اس عمارت پر دھاوا بولنے کے بعد مظاہرین نے اس نظر آتش کرنے کی کوشش بھی کی تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

یہ صورت حال گزشتہ پندرہ سال سے اس جنوب ایشیائی ملک میں برسر اقتدار وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ طرز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

جمعے کی شب وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے کرفیو کا نفاز کرتے ہوئے فوج کو طلب کر لیا گیا۔ یہ حکومتی اقدام پولیس کی مظاہروں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی وسیع پیمانے پر تباہی کو قابو کرنے میں ناکامی کے بعد اٹھایا گیا۔

ملکی مسلح افواج کے ترجمان شہادت حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ''امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو ملک بھر میں تعینات کیا گیا ہے۔‘‘

نجی نشریاتی ادارے چینل 24 کے مطابق کرفیو مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح دس بجے تک نافذ رہے گا۔

اقوام متحدہ کا گہری تشویش کا اظہار

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے جمعے کے روز بنگلہ دیش میں طلبہ مظاہرین پر حملوں کو ''حیران کن اور ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جاری تشدد پریشان کن ہے
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جاری تشدد پریشان کن ہےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

ان کا کہنا تھا،  ''مجھے بنگلہ دیش میں اس ہفتے کے تشدد پر گہری تشویش ہے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ طلبہ مظاہرین پر حملے خاص طور پر چونکا دینے والے اور ناقابل قبول ہیں۔‘‘

 بیان میں مزید کہا گیا، ''ان حملوں کی غیر جانبدارانہ، فوری اور مکمل تحقیقات ہونی چاہیں اور ذمہ داروں کو حساب دینا چاہیے۔‘‘

ترک نے کہا کہ وہ نیم فوجی پولیس یونٹوں کی تعیناتی کی اطلاعات سے بہت پریشان ہیں، جن کے بارے میں ان کے بقول،'' انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طویل ریکارڈ موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پرامن احتجاج میں طلباء کے تحفظ کو یقینی بنانے اور حملوں کے خوف کے بغیر اجتماع کی آزادی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

ش ر⁄ ع ت (اے ایف پی)

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں سے جڑا تنازعہ