بنگلہ دیش: مظاہرین کے خلاف کرفیو نافذ، شہروں میں فوجی گشت
20 جولائی 2024بنگلہ دیش میں جاری طلبہ کے مظاہروں کی وجہ سے دارالحکومت ڈھاکا سمیت دیگر شہروں میں پھیلنے والی بد امنی کو روکنے کے لیے آج ہفتے کے روز فوجی دستے سٹرکوں پر گشت کرتے دیکھے گئے۔ اس دوران حکومتی کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ بھی کی۔
ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
پولیس اور ہسپتالوں کی طرف سے دی گئی معلومات پر مبنی اور خبر رساں ادارے اے ایف کی طرف تیار کردہ متاثرین کی فہرست کے مطابق تقریباﹰ ایک ہفتے سے جاری تشدد کے واقعات میں اب تک کم از کم 115 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں اور پولیس نے ہفتے کے روز اے ایف پی کو گزشتہ روز ہونے والی جھڑپوں میں مزید 10 اموات کی اطلاع دی، جبکہ منگل کے بعد سے جمعے تک 105 دیگر اموات کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں ۔
ہسپتال کے عملے کی طرف سے اے ایف پی کو دی گئی تفصیلات کی بنیاد پر اس ہفتے اب تک رپورٹ ہونے والی نصف سے زیادہ اموات کی وجہ پولیس کی فائرنگ تھی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بابو رام پنت نے ایک بیان میں کہا، ''بڑھتی ہوئی ہلاکتیں بنگلہ دیشی حکام کی جانب سے احتجاج اور اختلاف رائے کے لیے ظاہر کی گئی مطلق عدم برداشت کی ایک چونکا دینے والی فرد جرم ہے۔‘‘
حکام نے جمعرات کو ملک بھر میں کی گئی انٹرنیٹ کی بندش کو تاحال جاری رکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا مواصلاتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ سرکاری ویب سائٹس آف لائن ہیں اور بڑے اخبارات بشمول ڈھاکہ ٹریبیون اور ڈیلی سٹار جمعرات سے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپ ڈیٹ کرنے سے قاصر ہیں۔
بنگلہ دیش ٹیلی ویژن، ریاستی نشریاتی ادارہ بھی آف لائن ہے، جس کے ڈھاکہ میں قائم ہیڈ کوارٹر کومظاہرین نے آگ لگا دی تھی۔
حسینہ حکومت کے لیے چیلنج
جولائی کے آغاز سے جاری ان روزانہ مظاہروں میں ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں کے لیے نوکریوں کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرانے کے منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس قبل یہ کوٹہ سسٹم 2018 میں طلبہ کے احتجاج کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔
یہ صورت حال گزشتہ پندرہ سال سے اس جنوب ایشیائی ملک میں برسر اقتدار وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ طرز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
جمعے کی شب وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے کرفیو کا نفاز کرتے ہوئے فوج کو طلب کر لیا گیا۔ یہ حکومتی اقدام پولیس کی مظاہروں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی وسیع پیمانے پر تباہی کو قابو کرنے میں ناکامی کے بعد اٹھایا گیا۔
ملکی مسلح افواج کے ترجمان شہادت حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ''امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو ملک بھر میں تعینات کیا گیا ہے۔‘‘
نجی نشریاتی ادارے چینل 24 کے مطابق کرفیو مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح دس بجے تک نافذ رہے گا۔
اقوام متحدہ کا گہری تشویش کا اظہار
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے جمعے کے روز بنگلہ دیش میں طلبہ مظاہرین پر حملوں کو ''حیران کن اور ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ۔
ان کا کہنا تھا، ''مجھے بنگلہ دیش میں اس ہفتے کے تشدد پر گہری تشویش ہے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ طلبہ مظاہرین پر حملے خاص طور پر چونکا دینے والے اور ناقابل قبول ہیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، ''ان حملوں کی غیر جانبدارانہ، فوری اور مکمل تحقیقات ہونی چاہیں اور ذمہ داروں کو حساب دینا چاہیے۔‘‘
ترک نے کہا کہ وہ نیم فوجی پولیس یونٹوں کی تعیناتی کی اطلاعات سے بہت پریشان ہیں، جن کے بارے میں ان کے بقول،'' انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طویل ریکارڈ موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پرامن احتجاج میں طلباء کے تحفظ کو یقینی بنانے اور حملوں کے خوف کے بغیر اجتماع کی آزادی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
ش ر⁄ ع ت (اے ایف پی)