1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: انتخابات اصلاحات کے بعد ہوں گے، محمد یونس

19 اگست 2024

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس نے عالمی برادری کو بتایا کہ حکومت جمہوری اداروں میں اصلاحات کے بعد آزادانہ، منصفانہ اور شرکت پر مبنی انتخابات کرائے گی۔

https://p.dw.com/p/4jbiy
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونستصویر: Munis uz Zaman/AFP

اتوار کے روز پروفیسر یونس نے 60 سے زائد غیر ملکی سفارت کاروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات کی۔

 

بنگلہ دیش میں مبینہ مظالم کی تحقیقات اقوام متحدہ کی ایک ٹیم کرے گی

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے متعین کردہ سفیروں کی واپسی کا حکم

بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں اموات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بھارت چلی گئیں، جس کے بعد نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس نے آٹھ اگست کو پیرس سے ڈھاکہ پہنچنے کے بعد ملک کی نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

محمد یونس نے کیا کہا؟

ڈھاکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ 'دا ڈیلی اسٹار' کے مطابق محمد یونس نے کہا کہ عبوری حکومت اصلاحات کے ایک سلسلے کے بعد ملک کو نئے انتخابات کے لیے تیار کرے گی۔

انہوں نے کہا، "جیسے ہی ہم الیکشن کمیشن، عدلیہ، سول انتظامیہ، سکیورٹی فورسز اور میڈیا میں اہم اصلاحات کرنے کا اپنا مینڈیٹ مکمل کر لیں گے، ہم آزادانہ اور منصفانہ شرکت والے انتخابات کا انعقاد کریں گے۔''

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت معاشی اصلاحات کی متحمل ہو سکے گی؟

بنگلہ دیشی قوم مذہبی اتحاد قائم رکھے، محمد یونس کی اپیل

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ، سول انتظامیہ، سیکورٹی فورسز اور ذرائع ابلاغ میں اہم اصلاحات کرنا عبوری حکومت کا مینڈیٹ ہے۔

اس وقت عبوری انتظامیہ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قانون کا نفاذ ہے کیونکہ چھ اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے ایک دن بعد ملک کے ڈیڑھ لاکھ  پولیس افسران ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ بہت سے پولیس افسران کو نئی انتظامیہ اور طلبہ تحریک کی طرف سے انتقام اور سزا کا خوف تھا کیونکہ پولیس نے مظاہرے ختم کرنے کے لیے بے رحمانہ قوت استعمال کی تھی۔ ہڑتال پر جانے والے زیادہ تر پولیس اہلکار نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد گذشتہ ہفتے کام پر لوٹ آئے تھے۔

 پرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں اموات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بھارت چلی گئیں
پرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں اموات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بھارت چلی گئیںتصویر: LUIS TATO/AFP

'حسینہ کی آمریت نے ملک کو تباہ کر دیا'

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے کہا،" میں نے ایک ایسے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے جو کئی لحاظ سے مکمل تباہ تھا۔ اقتدار میں رہنے کے لیے شیخ حسینہ کی آمریت نے ملک کے ہر ادارے کو تباہ کر دیا۔"

انہوں نے کہا،"عدلیہ کو توڑا گیا۔ ڈیڑھ دہائی کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ذریعے جمہوری حقوق کو دبایا گیا۔ انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی گئی۔ نوجوانوں کی نسلیں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیے بغیر پروان چڑھیں۔ مکمل سیاسی سرپرستی کے ساتھ بینک لوٹے گئے۔ اور طاقت کا غلط استعمال کرکے ریاستی خزانے کو لوٹا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ نئے دور کا آغاز ہوا ہے، لوگ اپنی سیاسی، مذہبی یا نسلی شناخت سے قطع نظر، اپنی خواہشات کو پورا کر سکیں گے کیونکہ عبوری حکومت جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کو برقرار رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ مسلح افواج قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد جاری رکھیں گی جب تک کہ صورتحال یقینی نہ ہو جائے۔ اب اولین ترجیح امن و امان کو جلد از جلد قائم کرنا ہے۔

محمد یونس نے ملک کے حالات کو معمول پر لانے میں عالمی برادری سے تعاون کی درخواست کی
محمد یونس نے ملک کے حالات کو معمول پر لانے میں عالمی برادری سے تعاون کی درخواست کیتصویر: PRABHAKAR/DW

عالمی برادری سے تعاون کی درخواست

انہوں نے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کا وعدہ کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا،"بنگلہ دیش ایک نئی شروعات کے سنگم پر کھڑا ہے۔ ہمارے بہادر طلباء اور عوام ہماری قوم کی دیرپا تبدیلی کے مستحق ہیں۔ یہ ایک مشکل سفر ہے اور ہمیں راستے میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی امنگوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔"

نوبل انعام یافتہ نے کہا کہ عوامی بغاوت کے دوران ہونے والی تمام ہلاکتوں کے لیے انصاف اور احتساب کو یقینی بنانا ایک اور ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقلابی طلباء چاہتے ہیں کہ ہم بامعنی اور گہری اصلاحات کریں، جو ملک کو ایک حقیقی اور فروغ پزیر جمہوریت میں بدل دے گی۔ یہ کام بہت بڑا ہے، لیکن تمام لوگوں اور عالمی برادری کے تعاون سے ممکن ہے۔

محمد یونس کا کہنا تھا، "مجھے کامیاب ہونا چاہئے، ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔"

انہوں نے بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی، علاقائی اور دو طرفہ معاہدوں کی پاسداری کا وعدہ کیا۔

بنگلہ دیش میں دائیں بازو کے مذہبی گروہ طاقت جمع کر سکتے ہیں کیا؟

ج ا ⁄  ص ز (خبر رساں ادارے)