برطانوی این ایچ ایس کا بحران
21 جولائی 2024برطانیہ کی کاونٹی ہرفورڈ شائر کے ٹاون اسٹیون ایج سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سالہ مائیکل لاروف ملک کی نیشنل ہیلتھ سروس سے سخت نالاں ہیں۔ اس عمر میں ان کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر انہیں کئی امراض کا سامنا ہے۔ مائیکل بتاتے ہیں کہ ان میں سے کچھ امراض کے لیے انہیں فوری طور پر ڈاکٹر سے مشاورت کی ضرورت ہے، '' لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ صرف ڈاکٹر نے مجھ سے فون پر بات کرنے کے لیے سات ہفتے لگائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی وہ ابھی تک ڈاکٹر سے مشاورت نہیں کر پائے ہیں۔
برطانیہ میں ہزاروں ڈاکٹروں کی آج تک کی طویل ترین ہڑتال شروع
یورپی یونین: پاکستان کے ساتھ ترجیحی تجارت کے تسلسل پر زور
برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی اس برس اپریل میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں علاج کے منتظر مریضوں کی تعداد پچھترلاکھ تھی، جس میں ذہنی امراض کے شکار مریض شامل نہیں ہیں۔
اس انتظار کی اذیت کا سامنا برمنگھم کے پاکستانی نژاد طارق حسین کو بھی رہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے بیٹے کے علاج کے لیے این ایچ ایس گیا، جہاں سے ہمیں ایک پرائیوٹ اسپتال این ایچ ایس کے خرچے پر بھیجا گیا۔‘‘
طارق حسین کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو ہرنییا کا آپریشن کرانا تھا، جس کے لیے اسے تین مہینے کا وقت دیا گیا۔ ''لیکن اس دوران اس کی دو تین مرتبہ طبیعت خراب ہوئی۔ جب دو مہینے بعد میں نے شور مچایا تو انہوں نے میرے بیٹے کی بگڑتی ہوئی طبعیت کو سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ اس کا آپریشن ایک گھنٹے میں ہوجانا چاہیے۔‘‘
نجی کمپنیوں کو نوازنے کی کوشش
مائیکل لاروف کا دعویٰ ہے کہ قدامت پرست جماعت اور لیبر پارٹی دونوں ہی یہ چاہتی ہیں کہ انتظار کا یہ وقت طویل ہو۔ ''پہلے اس کو بہانہ بنا کر ٹوری پارٹی این ایچ ایس کو نجی کمپنیوں کے کنٹرول میں دینا چاہتی تھی اور اب لیبر بھی ایسا ہی کرے گی گو کہ ان کا طریقہ تھوڑا مختلف ہوگا۔‘‘
این ایچ ایس لندن میں ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی ویلنٹینا یولو کا کہنا ہے کہ غیر محسوس طریقے سے این ایچ ایس کی نج کاری شروع ہوگئی ہے۔ ویلنٹینا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس جزوی نج کاری نے ہی تباہی مچادی ہے۔ صحت کو منافع خوروں کی لالچ کی نظر کیا جارہا ہے۔ اگر مکمل نجکاری ہوئی تو عام آدمی علاج کے لیے ترسے گا۔‘‘
ویلنٹینا کے مطابق، ''ایک طرف این ایچ ایس کے کئی یونٹس اور اسپتال بند ہو رہے ہیں اور دوسری طرف مریضوں کو نجی اسپتالوں میں بھیج کر این ایچ ایس کی طرف سے پیسے دیے جارہے ہیں۔‘‘
نجی اسپتالوں کی چاندی
مائیکل لاروف کی اس بات میں کچھ وزن دکھائی دیتا ہے۔ برطانیہ کے انگریزی روزنامے گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی شہری روز میری ڈف نے اپنے کولہوں کے آپریشن کے لیے 28 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں پرائیویٹ علاج انتہائی مہنگا ہے۔ گارڈین نے ایک برطانوی ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ''ایک متبادل گھٹنے کے لیے کی جانے والی سرجری میں 12 ہزار پاؤنڈ سے لے کر 15 ہزار پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں جبکہ کولہے کے لیے نوہزار پاونڈز سے لے کر16 ہزار پانچ سو پاؤنڈز اور موتیا کے خاتمے کے لیے دوہزار سے لے کر 4000 پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔
برطانیہ کے آفس آف نیشنل اسٹیٹسکس کے مطابق دوہزار دس سےنجی اسپتالوں کے ٹرن اوور میں چار گناہ اضافہ ہوا ہے، جو دوہزار دس میں ایک اعشاریہ تین بلین پاونڈز سے بڑھ کر گزشتہ برس چار اعشاریہ نو بلین پاونڈز تک پہنچ گیا۔
بد انتظامی اور دوسرے عوامل
تاہم برمنگم کے سٹی ہاسپٹل سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شبیع احمد کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس میں بحران کے کئی عوامل میں ایک اہم عنصر بد انتظامی بھی ہے۔ ڈاکٹر شبیع احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں صرف ایک بندہ ہوتا تھا جو کوآرڈینیشن کرتا تھا۔ اب حکومت نے اس کی جگہ تین لوگ رکھ لیے ہیں لیکن ان کی آپس میں کوئی رابطہ کاری نہیں ہے۔‘‘
شبیع احمد کے مطابق ڈاکٹرز اور اسٹاف کا قیمتی وقت کئی معاملات میں صرف اس وجہ سے ضائع ہوتا ہے کہ کوآرڈینیشن کرنے والے مریض سے آپریشن سے ایک دن پہلے یہ پوچھتے نہیں کہ آیا وہ دستیاب بھی ہیں یا نہیں۔ ''کئی مریض آپریشن والے دن نہیں آتے، جس کی وجہ سے ڈاکٹرز اور اسٹاف کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ ضائع ہونے کی یہ شرح چالیس فیصد تک ہے۔‘‘
ڈاکٹر شبیع احمد کے مطابق اس کے علاوہ ناکافی فنڈنگ، انفراسٹرکچر کی غیر تسلی بخش حالت، بیڈز اور آلات کی کمی، ڈاکٹرز کی کم تنخواہیں اور اسٹاف کی قلت بھی این ایچ ایس کے بحران کو شدید کر رہی ہے۔ ''ایک نئی نرس کی ٹیکس کے بعد کی تنخواہ بارہ سو سے پندرہ سو پاونڈز بنتی ہے۔‘‘
کووڈ، بریگزٹ، امیگریشن اور این ایچ ایس
ڈاکٹر شبیع احمد کے خیال میں برطانیہ کے یورپی یونین میں سے نکلنے کے بعد بھی این ایچ ایس پہ فرق پڑا ہے۔''نرسوں کی ایک اچھی خاصی تعداد یورپی ممالک سے تھی جو کم ہو گئی ہے۔ کووڈ کے دوران اسپتال کے اسٹاف کی اموات ہونے پر بھی نوجوان ڈر گئے ہیں اور وہ اس شعبے کی طرف کم آرہے ہیں جبکہ سخت ہوتے ہوئے امیگریشن قوانین نے بھی اس شعبے کو متاثر کیا ہے۔‘‘
ویلنٹینا یولو کے مطابق عارضی طور پر آئے ہوئے ڈاکٹرز کی وجہ سے بھی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ''اس طرح کے ڈاکٹرز زیادہ ذمہ دار نہیں ہوتے کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کل یہاں نہیں ہوں گے۔‘‘
حکومت بحران کے حل کے لیے کوشاں ہے
حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیبر پارٹی سے اکتالیس سال سے تعلق رکھنے والے لندن کے سابق کونسلر مشتاق لاشاری کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس سمیت تمام مسائل کے لیے پارٹی کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''حکومت امیروں پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے اور متمول اسکولوں پر بھی ویلیو ایڈیڈ ٹیکس( وی اے ٹی) لگایا جا رہا ہے۔‘‘
مشتاق لاشاری کے مطابق اس پیسے کو این ایچ ایس اور دوسرے اداروں میں لگایا جائے گا۔ ''مختلف اداروں میں چالیس ہزار بھرتیاں کی جائیں گی۔ این ایچ ایس میں نرسوں کو بھرتی کیا جائے گا اور ویک اینڈ پر بھی این ایچ ایس میں اوور ٹائم ہوگا۔‘‘