برطانوی اراکینِ دارالعوام کی مراعات پر بحث
14 جولائی 2024دارالعوام کی چھ سو پچاس نشستوں میں سے انگلینڈ کی پانچ سو تینتالیس، اسکاٹ لینڈ کی ستاون، ویلز کی بتیس اور شمالی آئر لینڈ کی اٹھارہ ہیں۔ اراکین نو مئی کو حلف اٹھائیں گے اور اسی دن اسپیکر کا بھی انتخاب ہوگا۔ برطانوی بادشاہ کی تقریر سترہ جولائی کو ہوگی۔
کیئر اسٹارمر وزیر اعظم بن گئے، ’برطانیہ کی تعمیر نو‘ کا عہد
چار جولائی کے برطانوی انتخابات: مسلم ووٹروں کا رجحان کس طرف
پرکشش تنخواہیں
ایوان زیریں کے تمام اراکین کو مجموعی طور پرپانچ کروڑ، تیرانوے لاکھ، چوہتر ہزار نو سو پاونڈز سالانہ تنخواہوں کی مد میں ملتے ہیں۔ ایک رکن کے حصے میں سالانہ تنخواہ اکیانوے ہزار تین سو چھ پاونڈز آتی ہے۔ وزیر بننے والے ایم پیز کے لیے اضافی تنخواہ بھی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک عام برطانوی شہری کی اوسطا سالانہ تنخواہ دوہزار تئیس میں انتیس ہزار چھ سو انہتر تھی جب کہ دوہزار بائیس میں ستائیس ہزار سات سو چھپپن اور دوہزار اکیس میں پچیس ہزار نو سو اکہتر تھی۔
مراعات
دوسری مراعات میں لندن اور لندن سے باہر کے ایم پیز کے لیے مختلف پیمانے ہیں۔ مثال کے طور پر لندن کے باہر سے تعلق رکھنے والے ایم پی کو اسٹاف رکھنے کے لیے مالی سال دوہزار بیس اکیس میں فی کس ایک لاکھ 77 ہزار 550 پاؤنڈز سالانہ دیئے گئے جبکہ لندن سے تعلق رکھنے والے اراکین کے لیے یہ رقم فی کس ایک لاکھ 88 ہزار 860 پاونڈز تھی۔ ایک ایم پی اوسطا چار ملازمین رکھتا ہے۔
اراکین کو اپنے دفاتر چلانے کے لیے بھی پیسے دیے جاتے ہیں۔ مالی سال دوہزار بیس اکیس میں لندن سے تعلق رکھنے والے ایم پیز کو اٹھائیس ہزار آٹھ سو پاونڈز فی کس سالانہ دیے گئے جب کہ اس سے باہر والے کو پچیس ہزار نو سو دس پاونڈز فی کس دیے گئے۔
دارالعوام کے 554 اراکین برطانوی دارالحکومت سے نہیں ہیں۔ ایسے اراکین کو لندن سے باہر رہائش اختیار کرنے کی صورت میں 16120 پاؤنڈز فی کس سالانہ دیے جاتے ہیں اور لندن میں 23 ہزار 10 پاؤنڈز فی کس سالانہ دیے جاتے ہیں۔
ایسے اراکین جو ایوان کی مختلف کمیٹیوں کے سرابرہ کے طور پر کام کرتے ہیں، انہیں اضافی مراعات یا الاونسیز دیے جاتے ہیں۔ اراکین کو سفری اخراجات، سیکیورٹی اور معذوری کے حوالے سے بھی بجٹ دیا جاتا ہے۔
اراکین دارالعوام اور عوامی مفادات
کچھ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اتنی زیادہ مراعات لینے کے باوجود اراکین عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کرتے۔ لندن کے علاقے آئلز ورتھ سے تعلق رکھنے والے ایکٹیوسٹ علی اسلم کا کہنا ہے کہ اراکین نے کئی معاملات میں عوامی مفادات کو نظر انداز کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت سارے ایم پیز مختلف لابیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایک ایم پی کی زوجہ نے چائینز کمپنی سے سامان لے کر این ایچ ایس کو فراہم کیا اور خوب پیسے کمائے جبکہ ایک خاتون ایم پی کے شوہر ہتھیاروں کی کمپنی سے تعلقات رکھنے پر خوب فائدے اٹھاتے رہے۔‘‘
علی اسلم کے مطابق اسکولز، پولیس اسٹیشنز، صحت کے اداروں سمیت کئی سرکاری اداروں میں فنڈنگ کی کمی ہے لیکن اراکین عوامی سہولیات کم کرنے کے لیے فنڈز میں کٹوتی کرتے ہیں۔ ''تاہم ان کے پاس جنگ اور جنگوں کی حمایت میں بہت پیسہ ہے۔‘‘
علی اسلم کے مطابق عراق، افغانستان اور غزہ کے مسئلے پر عوامی جذبات کچھ اور تھے جب کہ اراکین کی پالسیز کچھ اور۔
اراکین کی مجبوری
بریڈفورڈ سے تعلق رکھنے والے دانشور ڈاکٹر احمد ندیم سلیم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کئی معاملات میں اراکین عوامی جذبات یا خواہشات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان اراکین کو اپنی پارٹی پالیسی کی حمایت کرنی ہوتی ہے۔ اگر وہ پالیسی کسی جنگ کے حق میں ہے، تو ان کے لیے مخالفت بہت مشکل ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر احمد ندیم سلیم کے مطابق مخالفت کرنے کی صورت میں انہیں پارٹی چھوڑنی پڑتی ہے۔ ''غزہ کے مسئلے پر کئی مقامی سیاست دانوں نے اپنی جماعتوں کو چھوڑا اور اب وہ آزادانہ حیثیت یا کسی دوسری جماعت کی طرف سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔‘‘
اراکین عوامی مفادات کا خیال رکھتے ہیں
تاہم برمنگھم سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ دارالعوام خالد محمود کا دعویٰ ہے کہ ایم پیز عوامی مفادات کی بھرپور طریقے سے نمائندگی کرتے ہیں اور اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ خالد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اراکین نہ صرف اپنے علاقے کے مسائل پارلیمنٹ میں اٹھاتے ہیں بلکہ وہ عوامی مسائل کے لیے کونسل اور دیگر اداروں سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔‘‘
خالد محمود کے مطابق اس کے علاوہ اراکین باقاعدگی سے اپنے حلقے میں رائے دہندگان کے مسائل سنتے ہیں۔ ''حلقے اور پارلیمنٹ کی ذمہ داریاں نبھانا آسان نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اراکین عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کرتے یا ان کی مراعات بے تحاشہ ہیں بالکل مناسب نہیں۔‘‘
مراعات کا موازنہ نجی شعبے سے کریں
کینٹ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار بیرسٹر نسیم باجوہ کا کہنا ہے کہ ان مراعات کا موازنہ پرائیوٹ سیکٹر کے ملازمین کو ملنے والی تنخواہوں سے کرنا چاہیے۔ بیرسٹر نسیم باجوہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بینکوں میں کام کرنے والے مینیجر ایک لاکھ سے زیادہ سالانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اسی طرح جو ایم پیز قانون کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اگر وہ پرائیوٹ پریکٹس کریں تو اس تنخواہ سے کئی گناہ زیادہ کمائیں۔‘‘
بیرسٹر نسیم باجوہ کے مطابق ان کے خیال میں اراکین کی مراعات مناسب ہیں اور ان پر تنقید کی کوئی منطق نہیں ہے۔