باجوڑ میں داعش کے ہاتھوں جماعت اسلامی کے رہنما کا قتل
15 نومبر 2024صوبائی دارالحکومت پشاور سے جمعہ 15 نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق سینیئر پولیس اہلکار وقار رفیق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ماضی میں فاٹا کہلانے والے نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں سے ایک اور موجودہ ضلع باجوڑ میں جماعت اسلامی کے رہنما صوفی حمید کل جمعرات کی شام مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے کہ ایک موٹرسائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔ دونوں حملہ آوروں نے اپنے چہروں پر ماسک پہنے ہوئے تھے۔
باجوڑ میں جہاں یہ حملہ کیا گیا، وہاں سے پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد زیادہ دور نہیں۔ افغان سرحد کے قریب یا اس سے متصل سابقہ فاٹا علاقوں میں ممنوعہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ماضی میں کافی سرگرم رہے ہیں اور آج بھی فعال ہیں۔
اس حملے کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ نامی دہشت گرد گروپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک پیغام میں صوفی حمید کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ساتھ ہی اس پیغام میں یہ بھی کہا گہا کہ قتل کر دیے گئے مذہبی سیاسی رہنما کی ہلاکت کی وجہ ان کے اور ان کی جماعت کے نظریات اور مذہبی عقائد بنے۔
داعش کی علاقائی شاخ ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ کی طرف سے پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ’’مذہبی اصولوں سے انحراف‘‘ کرتے ہوئے پاکستانی حکومت اور فوج کی حمایت کرتی ہیں۔
اس ممنوعہ دہشت گرد گروہ کی جانب سے حالیہ عرصے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اجتماعات پر بھی متعدد مرتبہ حملے کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال تو باجوڑ ہی میں ایک انتخابی جلسے کے دوران کیے گئے خودکش بم دھماکے میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں 23 بچے بھی شامل تھے۔
اسی دوران ایک اعلیٰ مقامی سکیورٹی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ رواں برس شدت پسندوں کی جانب سے ضلع باجوڑ میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیے گئے مختلف مسلح حملوں اور بم دھماکوں میں اب تک 39 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ مہینوں کے دوران خاص طور پر صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اسلام کے نام پر عسکریت پسندانہ کارروائیاں کرنے والوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے کئی ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں سرکاری اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں اور سرکردہ شخصیات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں کافی سرگرم اور اسلام کا نام لے کر خونریزی کرنے والی ایک اور بڑی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی ہے۔ 2021ء میں افغانستان میں وہاں کی طالبان تحریک کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے کے بعد سے پاک افغان سرحد کے قریبی پاکستانی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں بھی دوبارہ کافی تیزی آ چکی ہے۔
ح ف/م م (اے ایف پی)