ایڈز کے خاتمے کے لیے یہ سال فیصلہ کن ہو گا، اقوام متحدہ
22 جولائی 2024سن 2023 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر نئی انفیکشنز کی تعداد اور ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن یو این ایڈز نے متنبہ کیا کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس بارے میں بے فکر ہو جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایڈز کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 40 ملین افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ یہ وائرس ان افراد میں کسی وقت بھی ایڈز کا سبب بن سکتا ہے۔
گزشتہ سال اس انفیکشن کے نئے تقریبا 13 لاکھ کیس ریکارڈ کیے گئے، جو سن دو ہزار بائیس کے مقابلے میں 100،000 زائد ہیں۔ لیکن سن انیس سو پچانوے کے مقابلے میں یہ کم ہیں، اس سال تینتیس لاکھ کیس سامنے آئے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق ایڈز سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار بھی کم ہوئے ہیں۔ سن دو ہزار بائیس میں چھ لاکھ 70 ہزار سے کم ہو کر گزشتہ سال چھ لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
ایڈ اور ایڈز میں فرق مشکل ہو گیا ہے
پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو بدنامی اور تفریق کا سامنا
اینٹی ریٹرو وائرل ادویات تک رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے، سن 2010 میں صرف 7.7 ملین مریضوں کا علاج کی یہ سہولت موجود تھی جبکہ اس وقت 30.7 ملین مریض اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اعداد و شمار سن دو ہزار پچیس کے لیے مقرر کردہ چونتیس ملین کے ہدف سے بہت کم ہیں۔
غریب ممالک میں مسائل زیادہ ہیں
مشرقی اور جنوبی افریقہ اب بھی سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں، جہاں 20.8 افراد ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال ان علاقوں میں 450،000 افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ 260،000 اموات ہوئیں۔
یو این ایڈز کی سربراہ وینی بیانیما نے اس بیماری سے نمٹنے کی خاطر عالمی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ ان کا ادارہ سن 2030 کے لیے مقرر کردہ اپنے اہداف کے حصول کی خاطر درست راستے پر نہیں ہے۔
یہ رپورٹ پچیسویں انٹرنیشنل ایڈز کانفرنس کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ اس مرتبہ یہ ایونٹ جرمن شہر میونخ میں بائیس تا چھبیس جولائی منعقد کیا جائے گا۔
ایچ آئی وی پازیٹیو روسی نوجوان علاج کیوں نہیں کرواتے؟
ایڈز کے معالجین بھی معاشرتی تنہائی کا شکار
بیانیما نے کہا کہ ایچ آئی وی کی وجہ بننے والی عدم مساوات کو مناسب طریقے سے حل نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر منٹ میں ایک شخص ایڈز سے ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتا ہے۔
عالمی سطح پر پندرہ سے انچاس برس کی عمر کے افراد میں ایڈز کا پھیلاؤ کا تناسب 0.8 فیصد ہے لیکن مشرقی اور جنوبی افریقہ میں قیدیوں میں اس کی شرح 1.3 فیصد اور پندرہ سے چوبیس سال کی خواتین اور لڑکیوں میں 2.3 فیصد ہے۔
سیکس ورکرز میں اس کی شرح تین فیصد، منشیات کا انجیکشن لگانے والے افراد میں پانچ فیصد، ہم جنس پرست افراد اور مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والے مردوں میں 7.7 فیصد اور ٹرانس جینڈر افراد میں 9.2 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
ایڈز کیا ہے اور یہ کیسے لاحق ہوتی ہے؟
یو این ایڈز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی میں مبتلا افراد کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ سن دو ہزار بیس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد 183,705 بنتی تھی۔
ایڈز ایک ایسی بیماری ہے، جو انسانی جسم کے دفاعی نظام کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ معمولی سی بیماریاں بھی خطرناک ہو جاتی ہیں۔
اس بیماری کا کوئی اکیسر علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ تاہم کچھ طریقے اور ادویات اس سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ سہولیات سب کے لیے موجود نہیں ہیں۔
ایڈز: ’بڑی مصیبت‘ سے بچنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ایڈز، ملیریا اور ٹی بی کے خلاف 6 ارب ڈالر جمع کر لیے گئے
ایڈز کی بیماری ایچ آئی وی کے ذریعے پھیلتی ہے۔ یہ وائرس غیر محفوظ جنسی تعلقات (کنڈوم کے بغیر سیکس) یا اور سوئی یا بلیڈ کے استعمال یا انفیکشن والے خون سے منتقل ہوتا ہے۔
ایڈز کی علامات کی تشخیص آسان نہیں اور عموما اس میں تاخیر جانی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی علامات دیگر بیماریوں کی علامات جیسی ہی ہوتی ہیں۔ تاہم خون کے ٹیسٹ سے ایچ آئی وی یا ایڈز کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
ع ب / ا ا ( اے ایف پی، روئٹرز)