1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تصادم اور تعاون دونوں کے لیے تیار ہیں، ایران

18 نومبر 2024

ایران نے پیر کو کہا کہ اسے اُمید ہے کہ اس ہفتے اقوام متحدہ کے جوہری ایجنسی کے بورڈ کے اجلاس سے قبل اس کے جوہری پروگرام پر بات چیت ’’سیاسی دباؤ اور تحفظات سے بالا تر‘‘ ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4n7aY
ایرانی صدر اور آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کی تہران میں ملاقات
ایرانی صدر اور آئی اے ای اے کے سربراہتصویر: Iranian Presidency Office/AP/picture alliance

 ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغائی نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہماری تمام کوششوں اور بات چیت کا مقصد بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کو کچھ فریقوں کے تباہ کن اور شیطانی دباؤ سے ہٹ کر اپنا تکنیکی کام کرنے کی اجازت دینا تھا۔‘‘

آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی  بدھ کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان سمیت اعلیٰ حکام سے بات چیت کے لیے ایران  پہنچے تھے۔ یہ بات چیت آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اس ہفتے ویانا میں شروع ہونے والے اجلاس سے پہلے ہوئی۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اس اجلاس میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی جانب سے ایران کے خلاف تنقیدی قرارداد منظور کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد اسلامی ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ مقرر

 باغائی نے امید ظاہر کی کہ فریقین ''ایران اور ایجنسی کے درمیان مسائل کو تکنیکی طریقے سے اور سیاسی دباؤ اور تحفظات سے دور رہ کر حل کریں گے۔‘‘ انہوں نے گروسی کے دورے کو ''فائدہ مند اور مثبت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تہران اور  بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی   کے درمیان ''اچھا سمجھوتہ‘‘ طے پا سکتا ہے۔

 تاریخی معاہدہ

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء  کے ایک تاریخی معاہدے نے ایران کو اُس کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے ضمن میں انتہائی ضروری ریلیف فراہم کیا تھا، جسے تہران ہمیشہ پرامن مقاصد کے لیے برقرار رکھنا کا یقین دلاتا رہا ہے۔ لیکن یہ معاہدہ ٹوٹ گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں 2018 ء میں امریکہ کے اس معاہدے سے یکطرفہ دستبراداری کے بعد تہران پر پابندیاں بحال کر دی گئیں۔

تہران میں ٓئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی  کی ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات
ٓئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے 14 نومبر کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کیتصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

جواب میں ایران نے معاہدے کے تحت اپنی یقین دہانیاں واپس لیتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کی سطح کو 60 فیصد تک بڑھا دیا، جو کہ جوہری بم بنانے کے لیے درکار افزدوگی کی سطح سے 30 فیصد کم ہے۔ ایران کے اعلیٰ سفارت کار عباس عراقچی نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ ملک کے جوہری پروگرام پر ''سفارت کاری کا ابھی بھی موقع موجود ہے‘‘، تاہم انہوں نے اسے ''محدود موقع‘‘ قرار دیا تھا۔

عباس عراقچی نے مزید کہا کہ ایران ''تصادم‘‘ اور ''تعاون‘‘ دونوں کے لیے تیار ہے، اس کا انحصار دوسرے فریقوں کے منتخب کردہ راستے پر ہے۔

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

 

چین کے ساتھ ایران کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، مشیرخامنہ ای

اُدھر ایران کے سپریم لیڈر کے ایک مشیر نے  نیوز ایجنسی اسنا کے ذریعہ دیے گئے ریمارکس میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے باوجود چین کے ساتھ ایران کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک مشیر علی اکبر ولایتی نے چین ایران تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں ریپبلیکن سیاست دان ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد بھی بیجنگ اور تہران کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ بیان نیوز ایجنسی اسنا کے ذریعہ سامنے آیا ہے۔

جوہری سرگرمیوں پر تشویش، آئی اے ای اے کے سربراہ ایران میں

ISNA کے مطابق علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ جنوری میں ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے ایران کی خارجہ پالیسی ''خاص طور پر چین کے ساتھ اس کے تعلقات‘‘ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور چین کے درمیان دیرینہ، قریبی اور دوستانہ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

 خبر رساں ادارے اسنا نے اتوار کی شب اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ تبصرے تہران میں چین کے سفیر کونگ پیو سے ملاقات کے دوران کیے گئے۔ ولایتی 1997ء  تک 16 سال ایران کے  وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور فی الحال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی جھنڈا، دو طرفہ کشیدگی کی علامت
ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے صدارتی دور میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء کے ایک تاریخی معاہدے کو ختم کر دیا تھاتصویر: Taidgh Barron/ZUMA/picture alliance

 چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور پابندیوں کے شکار ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ ایرانی وزیر تیل محسن پاک نژاد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو ٹرمپ کے انتخاب کے بعد تیل کی فروخت کے حوالے سے کوئی ''سنگین تشویش‘‘ لاحق نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے تعلقات

 اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ایران کے خلاف ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی آئندہ صدارتی مدت کے لیے چین اور ایران کے مخالف سیاستدان مارکو روبیو کو وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ ان کی ایران مخالف پالیسی میں تہران پر پرانی اور نئی پابندیاں عائد کرنا شامل ہے، جس کی مدد سے بیجنگ کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر کے وسیع منصوبے میں ایران کو شامل کرنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنایا دیا گیا تھا۔

ایرانی جوہری معاہدے کو 'مردہ' سمجھیں، امریکی صدر جو بائیڈن

چین اور ایران کے مابین معاہدہ

 چین اور ایران نے 2021 ء میں ایک 25 سالہ اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں توانائی، سکیورٹی، بنیادی ڈھانچے اور مواصلات سمیت مختلف شعبوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔

 اس سال ستمبر میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کو یقین دلایا تھا کہ چاہے بین الاقوامی اور علاقائی صورت حال کتنی بھی بدل جائے، چین ایران کی ''مدد‘‘ کرے گا۔

ک م/ ش خ( اے ایف پی، اسنا)