انگیلا میرکل کی کتاب، میرکل کا مشن، میرکل کی دنیا
26 نومبر 2024انگیلا میرکل کی کتاب کا اجرا مغربی ممالک میں ہی نہیں بلکہ چین میں بھی دھوم دھام سے کیا جائے گا۔ برلن کے ڈوئچز تھیٹر میں اس کتاب کا اجراء ہونا ہے، جہاں منگل کی شام کو سابق جرمن چانسلر کی 736 صفحات پر مشتمل کتاب کے ابتدائی پیشکش کے ٹکٹ چند منٹوں میں ہی آن لائن فروخت ہو گئے۔
میرکل کی اس کتاب کا نام "آزادی: یادداشتیں 1954-2021" ہے۔ اس کتاب میں سابق مشرقی جرمنی میں ان کے بچپن اور جوانی کی کہانی، جرمنی کے دوبارہ اتحاد اور سن 2021 میں ان کی 16 سالہ چانسلر شپ کے خاتمے سمیت ان کے سیاسی عروج جیسے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ایلون مسک کا ٹرمپ پر اثر و رسوخ ’بڑی تشویش‘، انگیلا میرکل
کتاب کو ایک آڈیو بک اور فرانسیسی و انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں ترجمے کے ساتھ بیک وقت شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد توقع ہے کہ 70 سالہ سابق رہنما کتاب کے فروغ کے لیے یورپ کے بڑے شہروں کا دورہ کریں گی۔
مائیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں اصلاحات: آئندہ سال کے لیے یورپی یونین کی توقعات
ٹرمپ اور پوٹن کے ساتھ تعلقات
کتاب کی اشاعت سے پہلے جاری کیے گئے بعض اقتباسات اور بعض اخباروں میں شائع ہونے والے انٹرویوز میں آج کل میرکل موجودہ واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے امریکی صدر کے طور ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ان سے ملاقات کے تجربے اور پہلی خاتون چانسلر امیدوار ہونے کی مشکلات نیز سن 2015 میں بے گھر ہونے والے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو جرمنی میں خوش آمدید کہنے کے اپنے فیصلے کی تفصیلات بتائی ہیں۔
انہوں نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات اور صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر بھی وضاحت پیش کی ہے۔
انگیلا میرکل نے سی ڈی یو سے منسلک تھنک ٹینک چھوڑ دیا
میرکل کی یادداشت پر مبنی کتاب غیر متوقع طور پر جرمنی کے وفاقی انتخابی مہم کے وقت سامنے آ رہی ہے۔ ان کے جانشین اولاف شولس کی مخلوط حکومت کا اچانک خاتمہ ہوا اور قبل از وقت انتخابات کی نوبت آئی۔ صحافی اور میرکل کی سوانح عمری کے مصنف رالف بولمن کے مطابق امکان ہے کہ انتخابات ان کی کتاب کے استقبال پر ایک طویل سایہ ڈالیں گے۔
بولمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسی طرح کی دیگر بین الاقوامی سطح پر غیر متوقع سیاسی پیش رفت بھی ہوں گی، جیسے کہ ٹرمپ کا دوبارہ صدر بننا۔ انہوں نے ٹرمپ کی پہلی میعاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "اس وقت وہ اپنی لبرل-جمہوری اقدار کے لیے امریکہ میں ان کی مخالف کے طور پر دیکھی جاتی تھیں۔ اس سے یقیناً اب انہیں کتاب کی مارکیٹنگ میں مدد ملے گی۔"
میرکل دو دسمبر کو واشنگٹن میں ہوں گی، جب وہ اپنے دوست اور سابق امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ امریکہ میں اپنی کتاب پیش کرنے والی ہیں۔
بولمن کہتے ہیں کہ یہ خیال کہ انہوں نے چونکہ روس کے ساتھ مصالحت کا رویہ اپنا رکھا تھا اس لیے یہ خیال کہ اب میرکل جرمنی کے اندر مقبول رہنما نہیں رہیں ایک "غلط حساب کتاب" پر مبنی اندازہ ہے۔ بولمن کا کہنا ہے کہ ان کے اب بھی "ملک میں بہت سے پرستار" ہیں اور کتاب اچھی فروخت ہو گی۔
پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی
بولمن کہتے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی کے فیصلوں سے زیادہ پریشانی اس بات پر ہونی چاہیے کہ ان میں "اپنی داخلی پالیسی میں اصلاح کی خواہش نہیں تھی۔" مثال کے طور پر، فوج میں اصلاحات یا موسمیاتی تبدیلی پر زبردست کارروائی جیسے مشکل مسائل کے ساتھ وہ آگے بڑھنے میں ہچکچاتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے، "ہر شخص آسانی سے اسی بات کا حوالہ دے گا جو اس کے ایجنڈے کے مطابق ہو۔" تاہم، حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی کتاب ایسے وقت منظر عام پر آ رہی ہے، جب جرمنی کو عام انتخابات کا سامنا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ چانسلر کے عہدے کے تمام بڑے امیدوار کس طرح اپنے اپنے انداز میں میرکل کے ووٹروں سے اپیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہر سیاسیات اور صحافی آندریاس پٹ مین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کتاب کا بنیادی مقصد کلیدی لوگوں اور واقعات کے بارے میں میرکل کے نقطہ نظر کو یکجا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کبھی بھی "اتنی وسیع تنقید اور نفرت کسی بھی سرکردہ سیاست دان کے ساتھ نہیں کی گئی ہے جتنی کہ انگیلا میرکل کے خلاف کی گئی۔ اسی لیے یہ بہت اہم کہ "وسیع تر عوام کے مفاد کے لیے وہ خود اپنے نظریے کو پیش کر سکیں۔"
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ سابق چانسلر اپنی کہانی بیچ کر کتنا پیسہ کمانے والی ہیں۔ متعدد جرمن ذرائع ابلاغ نے کسی کا حوالہ دیئے بغیر، دو سے بارہ ملین یورو کی رقم کا جائزہ پیش کیا ہے۔ البتہ میرکل کی ٹیم میں سے کسی نے بھی ان قیاس آرائیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس بارے میں انہیں جواب دینے کا سب سے قریبی موقع اس وقت ملا جب ڈیر اسپیگل میگزین کے ایک انٹرویو میں انہیں ایک جلد ہونے والی "ملٹی ملینیئر" کے طور پر بیان کیا گیا تھا اور ان کا موازنہ اوباما سے کیا گیا تھا، جنہوں نے اپنے صدارتی دور کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ میرکل نے کہا کہ اوباما کی طرح وہ بھی ایک ٹرسٹ قائم کرنے کی امید رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا، "میں اوباما جیسا کوئی بڑا کام نہیں کر سکوں گی۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں۔"
ان کی کتاب کی رونمائی کے لیے منتخب مقام کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ڈوئچ تھیٹر ان کی رہائش سے چند منٹ کی دوری پر ہے۔ وہ اور ان کے شوہر یوآخم سوئر، تھیٹر میں باقاعدہ مہمان ہیں، جسے شہر کے سب سے نفیس تھیٹروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
ص ز/ ج ا (کرسٹوف اسٹریک)