امریکہ نے وینزویلا کے صدر کا طیارہ ضبط کر لیا
3 ستمبر 2024امریکی محکمہ انصاف نے پیر کے روز پابندیوں کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے زیر استعمال طیارے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
اس طیارے کو ڈومینیکن ریپبلک میں ضبط کیا گیا اور پھر قبضے میں لے کر جنوبی امریکی ریاست فلوریڈا کے لیے روانہ کر دیا گیا۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ایک بیان میں کہا کہ "محکمہ انصاف نے ایک طیارہ ضبط کیا ہے، جس کے بارے میں ہمارا الزام یہ ہے کہ ایک شیل کمپنی کے ذریعے اس طیارے کو 13 ملین ڈالر میں غیر قانونی طور پر خریدا گیا تھا اور پھر اسے امریکہ سے باہر اسمگل کیا گیا تھا، تاکہ نکولس مادورو اور ان کے ساتھی اس کا استعمال کر سکیں۔"
امریکہ کا یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب 28 جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد صدر مادورو پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ صدر مادورو کا دعویٰ ہے کہ انہیں انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، تاہم اپوزیشن سمیت بہت سے حلقے ان انتخابات میں بدعنوانی اور دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہیں۔
وینزویلا کی حزب اختلاف کا دعوی ہے کہ اس کے ووٹوں کی تعداد بتاتی ہے کہ اس کے امیدوار اور اپوزیشن لیڈر ایڈمنڈو گونزالیز اصل فاتح ہیں۔
امریکہ نے طیارہ کیوں ضبط کر لیا؟
مذکورہ طیارہ ڈسالٹ فالکن 900ای ایکس ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس طیارے کو اپریل 2023 میں غیر قانونی طور پر خرید کر امریکہ سے کیریبیئن کے ذریعے وینزویلا لے جایا گیا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایک ترجمان نے کہا، "مادورو اور ان کے نمائندوں نے 28 جولائی کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے، فتح کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے اور طاقت کے ذریعے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے وسیع پیمانے پر جبر کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طیارے کی ضبطی، "اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے کہ مادورو وینزویلا پر اپنی غلط حکمرانی کے نتائج کو محسوس کرتے رہیں۔"
وینزویلا نے طیارے کی ضبطی کو مذمت کرتے ہوئے اسے "قزاقی" قرار دیا ہے۔
کراکس میں وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ "ایک بار پھر امریکہ کے حکام ایک ایسے مجرمانہ عمل میں مصروف ہیں، جسے قزاقی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔"
انتخابی نتائج پر احتجاجی مظاہرے
وینزویلا کے صدارتی انتخابات کے متنازعہ نتائج نے لاطینی امریکی قوم کو ہنگامہ آرائی کی حالت میں ڈال دیا ہے۔
اس کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک کم از کم 23 افراد ہلاک، درجنوں زخمی اور ہزاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور کئی ممالک نے انتخابی نتائج کی مخالفت کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)