امریکہ: نائن الیون حملوں کے منصوبہ سازوں کے ساتھ ڈیل منسوخ
3 اگست 2024امریکہ نے نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دیگر دو منصوبہ سازوں کے ساتھ مقدمے کی کارروائی سے قبل کی گئی ایک ڈیل منسوخ کر دی ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کے روز اس ڈیل کی منسوخی کا میمو جاری کیا، جس کے تحت ان ملزمان نے اپنے جرائم قبول کرنے کے بدلے سزائے موت سے بچ جانا تھا۔
خالد شیخ محمد اور ان کے دو مبینہ ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا اعلان بدھ کو کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا بظاہر مقصد ان ملزمان کے خلاف طویل عرصے سے چل رہے مقدمات کو حل کی طرف لے جانا تھا۔ تاہم گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے کچھ لواحقین کی جانب سے اس ڈیل پر غصے کے اظہار کے ساتھ ساتھ سرکردہ ریپبلکن سیاست دانوں کی طرف سے بھی اس پر تنقید بھی کی گئی۔
امریکی وزیر دفاع کی جانب سے اس مقدمے کی سماعت کرنے والی فوجی عدالت کی نگران سوسن ایسکلیئر کے نام میمو میں لکھا گیا ہے،'' ملزم کے ساتھ مقدمے سے قبل معاہدے کی اہمیت کی روشنی میں، اس طرح کے فیصلے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہونی چاہیے۔‘‘ میمو میں مزیدکہا گیا ہے، ''میں اس کے ذریعے تین پری ٹرائل معاہدوں سے دستبردار ہوتا ہوں، جن پر آپ نے 31 جولائی 2024 کو مذکورہ بالا کیس میں دستخط کیے تھے۔‘‘
مقدمے کی پیچدگیاں
نائن الیون کے مدعا علیہان کے خلاف مقدمات برسوں سے مقدمے سے پہلے کے مراحل میں الجھے ہوئے ہیں، جبکہ اس دوران ملزمان کیوبا کے گوانتاناموبے کے فوجی اڈے میں قید ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اس ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ خالد محمد، ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحوساوی نے عمر قید کی سزا کے بدلے نائن الیون کے حملوں کی سازش کا جرم قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ وہ کسی ایسے مقدمے کا سامنا نہ کریں، جو ان کی سزائے موت کا باعث بن سکے۔
ان ملزمان کے خلاف مقدمات میں قانونی لڑائی زیادہ تر اس پہلو پر مرتکز رہی ہے کہ آیا نائن الیون کے بعد کے سالوں میں سی آئی اے کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ان پر منصفانہ مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اگر ان ملزمان کے ساتھ کیے گئے پری ٹرائل معاہدوں پر عمل درآمد کیا جاتا تو اس کانٹے دار مسئلے سے گریز کیا جا سکتا تھا، لیکن اس ڈیل نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سیاسی مخالفین کی طرف سے شدید تنقید کو بھی جنم دیا۔
ریپبلکن قانون ساز مائیک راجرز نے آسٹن کے نام ایک خط میں لکھا کہ یہ سودے ''غیر معقول‘‘ ہیں، جب کہ ہاؤس کے اسپیکر مائیک جانسن نے کہا کہ یہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تقریباً 3000 افراد کے خاندانوں کے ''منہ پر تھپڑ‘‘ ہے۔
ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر کے لیے امیدوار جے ڈی وینس نے ان معاہدوں کو ''نائن الیون کے دہشت گردوں کے ساتھ پیارا سودا‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا، ''ہمیں ایک ایسے صدر کی ضرورت ہے، جو دہشت گردوں کو مارے، نہ کہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے۔‘‘
نائن الیون کے منصوبہ ساز کون؟
مارچ 2003ء میں پاکستان میں گرفتاری سے قبل خالد شیخ محمد کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے سب سے قابل اعتماد اور ذہین نائبین میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے 2006 میں گوانتانامو پہنچنے سے پہلے سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں تین سال گزارے۔
ایک تربیت یافتہ انجینئر خالد محمد کاکہنا ہے کہ وہ نائن الیون کے حملوں کے ''اے سے زیڈ تک‘‘ماسٹر مائنڈ تھے۔ وہ اس امریکہ کے خلاف بڑی بڑی سازشوں میں ملوث رہے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
یمنی نژاد سعودی بن عطاش نے مبینہ طور پر گیارہ ستمبر کے حملوں کو انجام دینے والے دو ہائی جیکروں کو تربیت دی تھی اور ان کے امریکی تفتیش کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عطاش نے دھماکہ خیز مواد خریدنے اور اس ٹیم کے ارکان کو بھرتی کرنے کا اعتراف کیا، جنہوں نے امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس کول پر حملے میں 17 سیلرز کو ہلاک کیا تھا۔ عطاش نے 2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پڑوسی ملک پاکستان میں پناہ لی اور 2003ء میں وہاں پکڑا گیا۔ اس کے بعد انہیں سی آئی اے کی خفیہ جیلوں کے نیٹ ورک میں رکھا گیا۔
حوساوی پر شبہ ہے کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کے لیے مالی امداد کا انتظام کیا تھا۔ انہیں بھی یکم مارچ 2003 کو پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور ہھر 2006 میں انہیں گوانتانامو منتقل کیے جانے سے قبل خفیہ جیلوں میں بھی رکھا گیا تھا۔
گوانتانامو اب بھی کھلا ہے
امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے دوران پکڑے گئے عسکریت پسندوں کو رکھنے کے لیے کیوبا میں قائم گوانتاناموبے کے الگ تھلگ بحری اڈے کا استعمال کیا تاکہ مدعا علیہان کو امریکی قانون کے تحت حقوق کا دعوی کرنے سے روکا جا سکے۔
ایک وقت پر گوانتاناموبے میں تقریباً 800 قیدی موجود تھے لیکن اس کے بعد انہیں آہستہ آہستہ دوسرے ممالک بھجوا دیا گیا۔ صدر بائیڈن نے اپنے انتخاب سے قبل گوانتاناموبے کو بند کرنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا۔
ش ر⁄ اا (اے ایف پی)