امریکہ میں اسقاط حمل کے رجحان میں اضافہ، سروے
18 اگست 2024اسقاط حمل کے حق کی حمایت کرنے والی تنظیم سوسائٹی آف فیملی پلاننگ (ایس ایف پی) کے سروے کے نتائج کے مطابق امریکہ میں 2024 کی پہلے سہ ماہی میں ماہانہ اوسطاً 98,990 حمل ضائع کیے گئے، جو 2022 اور 2023 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ایس ایف پی آن لائن طبی مشاورت کے ذریعے اسقاط حمل کی ادویات تک وسیع تر رسائی کو اس اضافے کی بڑی وجہ قرار دیتا ہے۔
سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ اپریل 2022 کے بعد سے آن لائن پلیٹ فارمز پر فراہم کی جانے والی طبی مشاورت اور ادویات کے ذریعے اسقاط حمل کا تناسب چار فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوگیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے جون 2022 میں اسقاط حمل کا آئینی حق ختم کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد ریپبلکن پارٹی کی زیر قیادت ریاستوں میں فیصلے پر تیزی سے عملدرآمد کرتے ہوئے اسقاط حمل کو محدود یا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔
تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کی زیر قیادت ریاستوں میں 'شیلڈ قوانین' نافذ کیے گئے، جو ان ڈاکٹروں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں، جو آن لائن سروس کے تحت پابندی والی ریاستوں سے آنے والے مریضوں کو طبی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔
تاہم ایس ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسے قوانین کے تحت اسقاط حمل کے لیے فراہم کی جانے والی طبی معاونت کو شمار سے نکال بھی دیا جائے تب بھی جنوری سے مارچ 2024 کے دوران ہر ماہ اوسطاً 89,770 اسقاط حمل کے کیسز کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جبکہ جنوری سے مارچ 2023 کے دوران ہر ماہ کی اوسط تعداد 86,967 سے زیادہ تھے۔
دریں اثناء شیلڈ قوانین کے تحت آن لائن طبی مشوروں کی مدد سے جنوری سے مارچ 2024 کے دوران ماہانہ اوسطاً 9200 حمل ضائع کیے گئے، جو کہ گزشتہ سہ ماہی سے 16 فیصد زیادہ تھے۔
اسقاط حمل کا معاملہ امریکی انتخابات میں فیصلہ کن
ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے انتخابی مہم کے دوران 'رو بنام ویڈ' نامی مقدمے میں عدالتی فیصلے کی منسوخی پر اپنے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کملا ہیرس نے عوام سے وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوجاتی ہیں تو قومی سطح پر اسقاط حمل کے حق کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے نئے قوانین نافذ کریں گی۔
خیال رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے 1973ء کے رو بنام ویڈ نامی مقدمے میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اسقاط حمل کے حق کو تسلیم کیا تھا۔ عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ اسقاط حمل کرانے یا نہ کرانے کا فیصلہ ریاست کا نہیں بلکہ متعلقہ فرد کا ہو گا۔
ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں امریکی سپریم کورٹ میں تین ایسے قدامت پسند ججز کی تعیناتی کی تھی، جنہوں نے تقریباﹰ نصف صدی پرانے 'رو بنام ویڈ' نامی مقدمے کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں واپسی کی صورت میں اسقاط حمل پر قومی سطح پر پابندی عائد کرنے کے ارادے کا اظہار تو نہیں کیا ہے۔ تاہم اسقاط حمل کے حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ وہ انیسویں صدی کے ایک قانون کا استعمال کرکے اسقاط حمل کے خلاف کارروائیوں کو قانونی جواز فراہم کرسکتے ہیں۔
ح ف / ش ر (اے ایف پی)