امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں دو اپریل جمعے کے روز ایک شخص نے کیپیٹل ہل کے باہر رکاوٹوں کے پاس تعینات دو پولیس افسران پر اپنی کار چڑھا دی، جس کے بعد اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ حملہ تقریبا اسی مقام کے پاس ہوا، جہاں سے چھ جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔
حملہ کیسے ہوا؟
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کار کیپیٹل ہل کی عمارت کی حفاظت پر معمور دو پولیس افسران سے ٹکرا کر بیریئر سے ٹکرائی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مشتبہ شخص کار سے باہر آ کر ان کی جانب چاقو تان کر بڑھا اور تبھی پولیس نے اس شخص پر فائرنگ کی، جس کے بعد حملہ آور کی ہسپتال میں موت واقع ہو گئی۔
کار حملے میں زخمی ہونے والے دونوں پولیس اہلکاروں کو بھی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ایک افسر بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گیا۔ امریکی کیپیٹل پولیس کے کارگزار سربراہ یوگنندا پٹمین کا کہنا تھا، ’’بہت ہی بھاری دل سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ہمارا ایک افسر بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ہے۔‘‘
ہلاک ہونے والے پولیس افسر کی شناخت ولیم ایوان کے طور پر کی گئی ہے، جو گزشتہ اٹھارہ برسوں سے کیپیٹل ہل پولیس سے وابستہ تھے۔ پٹمین نے ایک بیان میں کہا، ’’برائے کرم افسر ایوان کے لیے دعا اور ان کے اہل خانہ کا خيال کریں۔‘‘
حملے سے متعلق جو ویڈیوز آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں، ان میں ایک نیلی رنگ کی کار کو عمارت کے پاس ہی پولیس کی گاڑی کے ایک بیریئر اور محکمہ پولیس کی تفتیش والی ایک کار سے ٹکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کیا سیاست دانوں کو بھی کوئی خطرہ تھا؟
یہ واقعہ عمارت کے شمالی داخلی دروازے سے تقریبا 90 میٹر کے فاصلے پر پیش آيا، جس کا زیادہ تر استعمال سینیٹرز یا پھر کام کے دنوں میں دیگر عملہ کرتا ہے۔ ایسٹر کی تعطیلات کی وجہ سے کانگریس کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اور صدر بائیڈن بھی جمعے کو واشنگٹن میں نہیں تھے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اس حملے سے ان کا اور ان کی اہلیہ کا دل ٹوٹ گیا ہے، ’’امریکی کیپیٹل ہل کے قریب ایک چیک پوسٹ پر پرتشدد حملے کی خبر سن کر جل اور مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ ہم اپنے پولیس افسر، ان کے اہل خانہ اور ہر اس شخص کو جو اس نقصان پر غمزدہ ہے، دلی تعزیت پیش کرتے ہیں۔‘‘
کانگریس کے دیگر سینیئر رہنماؤں نے بھی پولیس افسر کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت کی ہے جبکہ کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ان کے احترام میں عمارت پر لگے امریکی پرچم کو سر نگوں رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
-
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
مصنف: امتیاز احمد
حملہ آور کون تھا؟
حملہ آور کی شناخت یا پھر اس حملے کی محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس بارے میں فوری طور پر کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ تاہم پولیس نے بعد میں اتنا ضرور کہا کہ اب کوئی مزید ایسا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ڈی سی میں محکمہ پولیس کے سربراہ رابرٹ کونٹی کا کہنا تھا، ’’بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ تھا لیکن ظاہر ہے ہم اس کے ہر پہلو کی تفتیش جاری رکھیں گے۔‘‘
واشنگٹن میں ڈی ڈبلیو بیورو کی سربراہ اینس پول کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا، جب شہر جنوری کے حملے کے بعد دوبارہ بتدریج کھلنے کی تیاری میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک مشتبہ شخص کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں معلوم کہ آیا اس نے تن تنہا یہ حملہ کیا یا پھر دیگر ایسے مزید حملوں کا کوئی منصوبہ تھا۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ شہر الرٹ پر ہے۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
خواتین کی کال
سب سے بڑا مظاہرہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں منعقد کیا جا رہا ہے، جس کی کال ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک نے جاری کی۔ متعدد خواتین ٹرمپ پر اپنے خلاف جنسی حملوں کے الزامات لگا چکی ہیں جبکہ اسقاط حمل کے حوالے سے ٹرمپ کے کچھ بیانات بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک کے منتظمین نے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر عوام سے اس جلوس میں شرکت کے لیے اپیل جاری کی تھی۔ ان خواتین کے احتجاج کا مقصد اپنے اُن حقوق کا دفاع کرنا ہے، جنہیں وہ ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اور مستقبل کی ممکنہ پالیسیوں کے تناظر میں خطرے میں دیکھ رہی ہیں۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
سوشل میڈیا پر رابطہ کاری
جمعے کے روز تک ہی سوا دو لاکھ افراد نے واشنگٹن میں ہونے والے اس مظاہرے میں اپنی شرکت کی تصدیق کر دی تھی۔ اس احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد میں امریکی شو بزنس سے تعلق رکھنے والے ستارے بھی شریک ہو رہے ہیں۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
توقعات سے زیادہ تعداد
منتظمین کو توقع تھی کہ واشنگٹن میں اس مظاہرے میں دو لاکھ افراد شرکت کریں گے تاہم آخری خبریں آنے تک اس مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی تجاوُز کر چکی تھی۔ خواتین خاص طور پر گلابی رنگ کی ٹوپیاں اور ملبوسات پہنے اس مظاہرے میں شرکت کر رہی ہیں۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
خواتین کے ساتھ یک جہتی
واشنگٹن میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر امریکا بھر کے تین سو شہروں میں ’سسٹرز مارچ‘ منظم کیے جا رہے ہیں۔ ان شہروں میں نیویارک، بوسٹن، لاس اینجلس اور سیئیٹل بھی شامل ہیں۔ ان امریکی خواتین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار دنیا بھر کے تین سو شہروں میں بھی کیا جا رہا ہے۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
سڈنی میں بھی مظاہرہ
دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کا آغاز ہفتے کی صبح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہوا تھا۔ بعد ازاں کئی یورپی شہروں بشمول برلن میں بھی مظاہرے منظم کیے گئے۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
ویلنگٹن میں اجتماع
نیوزی لینڈ کے شہر ویلنگٹن میں بھی اکیس جنوری کے دن خواتین نے ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مظاہرے میں شرکت کی۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
فرانس میں ریلی
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوئے ایک مظاہرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سردی کے باوجود یہ لوگ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ایفل ٹاور کے قریب جمع ہوئے۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
جنیوا میں اظہار یک جہتی
سوئٹزرلینڈ میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ جنیوا میں ٹرمپ کے خلاف منعقد ہونے والے ایک مظاہرے کی تصویر۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
لندن کی سڑکوں پر ریلی
دیگر یورپی ممالک کی طرح برطانوی دارالحکومت لندن میں بھی لوگوں کی ایک معقول تعداد سڑکوں پر نکلی اور ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
’نسل پرستی نامنظور‘
لندن میں منعقد ہونے والے مظاہرے میں خواتیں نے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا، ’ٹرمپ اور نسل پرستی نامنظور‘۔ جمعے کے روز ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ہی میں پُر تشدد مظاہرے بھی ہوئے، جن کے دوران پولیس نے دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
ہیلسنکی میں مظاہرہ
گزشتہ کئی عشروں میں کسی بھی امریکی صدر نے عوام کو اس حد تک تقسیم نہیں کیا، جتنا کہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دیا ہے۔ فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی بھی ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
برلن کا اجتماع
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے مشہور زمانہ برانڈن برگ گیٹ پر ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن عوام نے ’برابری‘ کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
سپین کی بھی شرکت
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کی کال پر یورپی ملک اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ریلی نکالی گئی، جس کے دوران متعدد خواتین نے صنفی برابری اور مساوات کے حق میں نعرے بازی کی۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
بھارت میں بھی مظاہرہ
مغربی ممالک کی طرح بھارتی شہر کلکتہ میں بھی خواتین نے ایک مارچ کا اہتمام کیا۔ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نے دنیا بھر میں بالخصوص خواتین سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف مظٰاہرے کریں۔
-
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
ارجنٹائن تک گونج
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کی اپیل پر ارجنٹائن کے دارالحکومت میں بھی خواتین سڑکوں پر نکلیں۔ بیونس آئرس میں منعقدہ ہوئی ایک ریلی میں خواتین نے امریکی صدر ٹرمپ کو مسترد کر دیا۔
مصنف: عاطف بلوچ
سکیورٹی کا سخت پہرہ
امریکی کیپیٹل پر گزشتہ جنوری میں ٹرمپ کے حامیوں نے، جس طرح کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا اس کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ اُس حملے میں ایک پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُس وقت سکیورٹی کے مقصد سے راستوں پر جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں انہیں بتدریج ہٹانے کا کام شروع کیا گيا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے ہی سکیورٹی حکام بار بار یہ تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے گروپوں اور ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر حملے کے خدشات برقرار ہیں۔ اس تازہ واقعے کے بعد سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ص ز/ ا ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)