افریقہ کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ: غیر قانونی کان کنی
20 اکتوبر 2024افریقی ملک گھانا میں لاکھوں لوگوں کو سونے کی غیر قانونی کان کنی کے خطرناک نتائج کا سامنا ہے۔ یہ عمل، جسے مقامی طور پر ''گالمسی'' کہا جاتا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی نقصانات کا باعث بنا ہے۔
قومی سطح پر اس کے خلاف آوازیں اٹھائے جانے کے باوجود غیر قانونی کان کنی جاری ہے، جس سے گھانا کی زرعی پیداواری صلاحیتوں اور صحت عامہ دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس ملک کے دریا زہریلے کیمیائی مادوں سے آلودہ ہیں۔ گالمسی (galamsey) کے کاروبار میں مقامی باشندے اور غیر ملکی دونوں شامل ہیں۔
صدر نانا اکوفواڈو نے 2017 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد گالمسی ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود ایسی کان کنی کی بندش کے حوالے سے اقدامات کا نفاذ کمزور ہے۔ متاثرہ برادریوں کے ارکان حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حاملہ ماؤں کی طرف سے محسوس کیے جانے والے اثرات
گھانا کے فرانزک پیتھالوجسٹ پروفیسر پال پوکو سمپین اوسی چھوٹے پیمانے پر کان کنی کی تمام اقسام پر مکمل پابندی کے حامی ہیں۔ انہوں نے گھانا میں میڈیا کو بتایا کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غیر قانونی کان کنی سے ہونے والا نقصان ''بد سے بدتر'' ہوتا جا رہا ہے۔
مغربی گھانا کے غیر قانونی کان کنی کے ایک مرکز بیبیانی۔انہویاسو۔ بیکوائی ضلع میں ان کی ٹیم نے حاملہ خواتین کے رحم مادر میں سائنائیڈ، سنکھیا اور پارے جیسی بھاری دھاتوں کی موجودگی کا پتہ لگایا، جن کی وجہ سے بچے پیدائشی نقائص کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ ریسرچ غیر قانونی کان کنی اور پیدائشی نقائص کے درمیان تعلق پر شائع شدہ دیگر مطالعات کے نتائج کی تائید کرتی ہے۔
گھانا میں ایک تحقیقاتی اور ماحولیاتی صحافی ایرسٹس آسرے ڈونکور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک بھر میں تقریباً ہر بڑا دریا آلودہ یا انتہائی آلودہ ہے۔
غیر قانونی کان کن کون ہیں؟
گھانا میں گالمسی کے بارے میں بڑے پیمانے پر رپورٹنگ کرنے والے ڈونکور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ غیر قانونی کان کنی سے نمٹنے کے لیے کئی برسوں کے دوران قائم کی گئی حکومتی ٹاسک فورسز غیر مؤثر ثابت ہوئی ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والے حلقے اس میں ملوث ہیں۔
گھانا کے اس صحافی نے وضاحت کی کہ اس نے جنگل کے ذخائر میں کان کنی کی سرگرمیوں میں مصروف ''سیاسی اور حکومت میں شامل افراد'' کو دیکھا ہے۔ جب فوجی اہلکاروں کو ان مقامات پر تعینات کیا جاتا ہے، تو اکثر سرکاری اہلکار انہیں ان کا مینڈیٹ پورا کرنے سے روکتے ہوئے ری ڈائریکٹ کر دیتے ہیں۔
ڈونکور نے کہا، ''سیاسی افراد، حکومتی لوگوں اور بااثر شخصیات کی شمولیت وہ بنیادی وجہ ہے کہ اس غیرقانونی عمل کو روکنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔''
انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی اسٹڈیز (ISS) کے ایک تجزیہ کار اینوک رینڈی ایکنز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنوبی افریقہ میں غیر قانونی کان کنی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے اور غیر ملکی شہری، سیاست دان اور بااثر افراد بھی ان سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اربوں ڈالر مالیت کی اسمگلنگ
مئی میں غیر سرکاری تنظیم سوئس ڈویلپمنٹ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر سال اربوں ڈالر مالیت کا سونا افریقہ سے اسمگل کیا جاتا ہے، اور اس کا زیادہ تر حصہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں دبئی کے ذریعے دنیا بھر میں منتقل کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دبئی افریقی سونے کی تجارت کا بین الاقوامی مرکز ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 321 ٹن سے لے کر 474 ٹن تک افریقی سونا، جو چھوٹے پیمانے پر کان کنی کے نتیجے میں تیار کیا جاتا ہے اور جس کی مالیت 24 بلین سے 35 بلین تک بنتی ہے، ہر سال غیر اعلانیہ طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔
اس این جی او کے مطابق افریقی سونے کی اسمگلنگ 2012 اور 2022 کے درمیان دگنی سے بھی زیادہ تھی اور یہ اب بھی بڑھ رہی ہے۔ 2022 میں افریقہ سے متحدہ عرب امارات میں درآمد کیا گیا 66.5 فیصد (405 ٹن) سونا افریقی ممالک سے اسمگل کیا گیا تھا۔
یو اے ای سونے کی ریفائنریوں اور ہزاروں قیمتی دھاتوں اور قیمتی پتھروں کے تاجروں کا مرکز ہے۔
سوئس این جی اوکی یہ رپورٹ 2012 سے 2022 تک 54 افریقی ممالک میں جمع کیے گئے ڈیٹا پر مبنی ہے اور اس میں ان ممالک میں سرکاری طور پر اعلان کردہ سونے کی پیداوار، برآمد اور درآمد کے اعداد و شمار کے ساتھ موازانہ کر کے حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اوکیری نوٹینازو، جوزفین مہاچی ( ش ر، م م)