غزہ میں جبری نقل مکانی انسانیت کے خلاف جرم، ہیومن رائٹس واچ
14 نومبر 2024انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کی آج 14 نومبر بروز جمعرات جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں فلسطینیوں کو جس حد تک جبری نقل مکانی پر مجبور کیا ہے، وہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ رپورٹ امدادی گروپوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے غزہ کی محصور پٹی میں خوفناک انسانی صورت حال کے بارے میں خبردار کرنے والے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ہیومن رائٹس واچ نے پایا ہے کہ جبری نقل مکانی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ منظم اور ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں انسانیت کے خلاف جرائم بھی بنتی ہیں۔‘‘
اسرائیلی فوج یا وزارت خارجہ کی جانب سے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا لیکن اسرائیلی حکام اس سے قبل ایسے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی افواج بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتی ہیں۔ مسلح تصادم سے متعلق بین الاقوامی قانون کسی بھی مقبوضہ علاقے سے شہری آبادی کی زبردستی نقل مکانی کی ممانعت کرتا ہے۔ اور یہ صرف اسی صورت میں نقل مکانی کی اجازت دیتا ہے جب ایسا کرنا شہریوں کی حفاظت یا لازمی فوجی وجوہات کے لیے ضروری ہو۔
اسرائیل نے گزشتہ سال غزہ پٹی پر حملہ اس وقت کیا تھا، جب حماس کے مسلح جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 250 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں جوابی فوجی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس اسرائیلی فوجی مہم میں اب تک 43,736 افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ اس ساحلی پٹی کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، جس سے 2.3 ملین آبادی میں سے زیادہ تر باشندے کئی بار نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوجیوں نے گزشتہ ماہ شمالی غزہ میں دوبارہ فوجی آپریشن میں تیزی لانے کے بعد سے وہاں کے دسیوں ہزار لوگوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ اس علاقے سے حماس کا صفایا کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں جبالیہ، بیت لاہیہ اور بیت حنون کے قصبوں کے ارد گرد فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے، ''بفر زونز اور سکیورٹی کوریڈورز کے نام پر فلسطینیوں کو مستقل طور پر بے گھر رکھنے کی منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ ایک ایسی کارروائی جو اس تنظیم کے بقول ''نسلی تطہیر‘‘ کے مترادف ہو گی۔ اسرائیلی فوج نے مستقل بفر زون بنانے کی کوشش کی تردید کی ہے اور وزیر خارجہ گیدیون سار نے پیر کے روز کہا تھا کہ شمالی غزہ میں اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ کے اختتام پر واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل کی بیروت پر مسلسل تیسرے روز بھی بمباری جاری
اسرائیلی افواج نے آج بروز جمعرات مسلسل تیسرے دن بھی بیروت میں حزب اللہ کے زیر کنٹرول علاقوں پر فضائی حملے جاری رکھے۔ بدھ کو رات بھر کی گئی شدید بمباری کے بعد جمعرات کو علیٰ الصبح دارالحکومت کے جنوبی مضافات میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ لبنان کی قومی خبر رساں ایجنسی (این این اے) کے مطابق بیروت کی فضا میں دھوئیں کے بادل ہیں جب کہ اسرائیلی حملے ابھی جاری ہیں۔
این این اے کے مطابق بازوریہ اور جمیجیمہ کے قصبوں پر فضائی حملوں میں پانچ افراد مارے گئے۔ اسرائیل نے غزہ کی جنگ کے متوازی تقریباً ایک سال کی سرحد پار لڑائی کے بعد ستمبر کے آخر میں ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے خلاف ایک بڑے فضائی اور زمینی حملے کا آغاز کیا تھا۔ لبنانی حکام نے ابھی تک بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں پر جمعرات کے حملوں میں ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی، جنہیں بڑے پیمانے پر خالی کرا لیا گیا ہے۔
لبنانی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر سے لبنان بھر میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 3,365 افراد ہلاک اور 14,344 زخمی ہو چکے ہیں۔ لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری کے سیاسی معاون علی حسن خلیل نے بدھ کے روز کہا کہ لبنانی مذاکرات کاروں نے امریکی ایلچی آموس ہوچسٹین کے ساتھ جنگ بندی کے فریم ورک پر ابتدائی سمجھوتہ کر لیا ہے۔
بدھ کی شام نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں خلیل نے کہا کہ اس تجویز کو ہوچسٹین کے ذریعے اسرائیلی فریق کو پہنچایا گیا تھا، حالانکہ لبنان کو ابھی تک اسرائیل کی طرف سے کوئی ردعمل یا تجویز پیش نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ معاہدے کو مضبوطی سے اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مبنی ہونا چاہیے، جو 2006 میں منظور کی گئی تھی، تاکہ لبنانی فوج کو اسرائیل کے ساتھ اپنے جنوبی سرحدی علاقے کو لبنانی ریاست کے علاوہ دیگر ہتھیاروں یا مسلح افراد سے پاک رکھنے میں مدد ملے۔
خلیل نے کہا کہ لبنان کو جنگ بندی کی تعمیل کی نگرانی میں امریکہ یا فرانس کی شرکت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کے روز کسی بھی ایسے جنگ بندی معاہدے کو خارج از امکان قرار دیا تھا، جو بقول ان کے اسرائیل کو حزب اللہ کے خلاف اپنی مرضی سے کارروائی کرنے سے روک دے۔
ش ر / م م، ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)