خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Walla سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اسد اس جنگ میں فتحیاب ہو کر ابھرے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اچانک ہر کوئی اب اسد کے قریب ہونے کی کوشش میں ہے۔‘‘
ایوگڈور لیبرمان کا اس نیوز ویب سائٹ سے گفتگو کے دوران کہنا تھا، ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ اب ایسے ممالک کی ایک طویل قطار ہے جو اسد کی تعریف اور توصیف کر رہے ہیں، ان میں مغربی ممالک اور اعتدال پسند سنی مسلم ریاستیں بھی شامل ہیں۔‘‘
شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ 2011ء سے جاری بغاوت اور خانہ جنگی کا پلڑا اُس وقت سے اسد کی جانب جھکنے لگا تھا جب روس نے اپنی فورسز 2015ء میں شام میں اتاری تھیں اور شامی فورسز کو باغیوں اور داعش کے خلاف جاری آپریشن میں مدد فراہم کرنا شروع کی۔ یکے بعد دیگرے ملنے والی فتوحات کے بعد اب شامی فورسز ملک کے زیادہ تر علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی کی طرف سے ابتداء میں بشارالاسد سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ملک کی سربراہی چھوڑ دیں تاہم بعد ازاں اسرائیلی حکام کی طرف سے کوشش کی گئی کہ وہ اس تنازعے میں بہت زیادہ نہ الجھیں۔
’’اچانک ہر کوئی اب اسد کے قریب ہونے کی کوشش میں ہے‘‘
تاہم اسرائیل کی طرف سے اسد کے حامی ملک ایران پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ لبنان کی حزب اللہ کو جدید ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے کئی مرتبہ شام کے اندر ایسے قافلوں پر حملے بھی کیے جن کے بارے میں اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ شیعہ تنظیم حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ برس یہ تسلیم کیا تھا کہ اسرائیل نے ایسے درجنوں قافلوں کو نشانہ بنایا تھا جو حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہے تھے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمان نے امید ظاہر کی کہ امریکا شامی تنازعے کے حوالے سے اپنا کردار بڑھائے گا: ’’ہمیں امید ہے کہ امریکا شام میں خاص طور پر اور مشرق وسطیٰ میں عمومی طور پر زیادہ فعال ہو گا۔‘‘
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
-
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔