1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فن تعمیر

آئیفل ٹاور کی سیڑھی کا حصہ قریب دولاکھ امریکی ڈالر میں نیلام

28 نومبر 2018

فرانس کے تاریخی برج ’آئیفل ٹاور‘ کی گول سیڑھیوں کے ایک حصے کو کینیڈا میں نیلامی کے دوران مشرقی وسطیٰ کے ایک خریدار نے ایک لاکھ نوے ہزار امریکی ڈالر میں خرید لیا۔

https://p.dw.com/p/393Lw
Treppenstück des Eiffelturms wird versteigert
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Euler

فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم تین سو چوبیس میٹر بلند آئیفل ٹاور کو اس شہر کی شناخت قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1889 میں تعمیر کیے گئے اس ٹاور کو دنیا بھر سے یومیہ ہزاروں سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہیں تاہم مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ایک نامعلوم مداح نے تو آئیفل ٹاور کے زینےکے 900 کلوگرام وزنی حصے کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قریب دو لاکھ امریکی ڈالر (190,885$) کی بولی لگا دی۔

کینیڈا میں منگل کے روز ایک سو انتیس سال پرانے آئیفل ٹاور کی گول سیڑھی کے ٹکڑے کی نیلامی کی گئی۔ یہ آہنی زینہ آئیفل ٹاور کی دوسری اور تیسری منزل کے درمیان نصب تھا۔ نیلام گھر کے منتظمین کے مطابق یہ حصہ نیلامی کے دوران منعقد کی گئی ابتدائی قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت میں نیلام ہوا ہے۔

Nach Terroranschlag in Barcelona Eiffelturm
آئیفل ٹاور کی تعمیر 1887 میں شروع اور 1889ء میں مکمل ہوئی۔تصویر: picture alliance/robertharding/M. Parry

اس حصے کی لمبائی چودہ فٹ ہے جس میں پچیس زینے شامل ہیں۔ سن 1887 سے 1889ء میں مکمل ہونے والے آئیفل ٹاور کے ڈیزائنر گستاف آئیفل نے اس سیڑھی کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔  1986ء میں ’ایلیویٹر‘ یعنی الیکٹرک سیڑھیاں نصب کرنے کے لیے لوہے کی سیڑھی کو نکال دیا گیا۔

آئفل ٹاور کی جاذبیت کے سوا سو سال

بعد ازاں پرانی سیڑھی کو متعدد حصوں میں الگ کر کے نیلامی کے لیے پیش  کیا گیا۔ اس سیڑھی کا ایک حصہ امریکی ریاست فلوریڈا کے ڈزنی لینڈ میں موجود ہے جبکہ دوسرا حصہ نیویارک میں ’سٹیچو آف لبرٹی‘ یعنی مجسمہ آزادی کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے فرانس نے امریکا کو یہ سیڑھی تحفے میں دی تھی۔

قبل ازیں سن 2016 میں آئیفل ٹاور کا ایک اور حصہ قریب سوا پانچ لاکھ یورو میں نیلام کیا گیا تھا۔ آئیفل ٹاور کو’آئرن لیڈی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ایک یادگار کا درجہ بھی حاصل ہے۔

ع آ / ع ا (Reuters, dpa, AFP)

آئیفل ٹاور کے بارے میں چند دلچسپ حقائق