1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں لاپتہ شہری، انسانی حقوق کے گروپ گو مگو میں

افسر اعوان3 ستمبر 2016

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ یوکرائن کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ملک کے مشرقی حصوں میں قائم حراستی مراکز میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو قید رکھا ہوا ہے۔ کییف حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JvGk
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/S. Glovny

دوسری طرف یوکرائن سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کی ایک نامور کارکن نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سے کہا ہے کہ وہ توازن قائم رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ وہ خود ایسے جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے مرتکب ماسکو کے حمایت یافتہ باغی ہوئے۔

اس معاملے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یوکرائن کے خونریز تنازعے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیق کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس تنازعے کے باعث اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رواں برس جولائی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی گئی جس کا عنوان تھا ’’یُو ڈونٹ ایگزسٹ‘‘ یعنی آپ وجود ہی نہیں رکھتے۔ اس رپورٹ میں یوکرائنی حکام اور علیحدگی پسند باغیوں دونوں کی طرف سے سویلین افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے جانے والے کیسز کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ حراستیں بعض اوقات کئی کئی ماہ تک خفیہ رکھی جاتی ہیں۔

ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق، ’’یوکرائنی حکام اور کییف نواز پیراملٹری گروپس نے اس شبے میں سویلین کو حراست میں لیا کہ وہ روس نواز باغیوں کے ساتھ ہیں یا پھر ان کی مدد کرتے ہیں۔ جبکہ علیحدگی پسند فورسز نے ایسے سویلین کو حراست میں لیا جن پر انہیں شبہ تھا کہ وہ یوکرائنی حکومت کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے گرفتار کیے گئے افراد کو ملک کی سکیورٹی سروسز SBU کے حوالے کر دیا گیا۔ تاہم اس حوالگی سے قبل زیر حراست افراد کو مار پیٹ، بجلی کے جھٹکوں کا نشانہ بنایا گیا یا پھر انہیں جنسی زیادتی کرنے، قتل کرنے اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی گئیں۔

مارچ میں اقوام متحدہ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں مختلف طرح کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ خفیہ جیلوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا
مارچ میں اقوام متحدہ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں مختلف طرح کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ خفیہ جیلوں کا بھی ذکر کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

یوکرائن میں جاری بحران کے تناظر میں وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ رواں برس مارچ میں اقوام متحدہ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں مختلف طرح کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ خفیہ جیلوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے اتوار کے روز بتایا گیا کہ ان کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد ان کے نمائندوں نے یوکرائنی حکام سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں حکام نے 13 ایسے لوگوں کو رہا کر دیا جنہیں خفیہ حراست میں رکھا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ رشیا پروگرام کی ڈائریکٹر تتیانا لوک شینا نے اس رہائی کو ’خوشخبری‘ قرار دیا۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بعض دیگر گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ علیحدگی پسند باغی، یوکرائنی حکومت سے کہیں زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یوکرائن کے خرکِیف ہیومن رائٹس پروٹیکشن گروپ سے تعلق رکھنے والی حالیا کوئیناش کا تاہم کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’مسخ شدہ‘ تصویر پیش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرائنی حکام کی طرف سے 13 زیر حراست افراد کی رہائی کی خبر کو تو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا مگر اس دوران ماسکو نواز باغیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی۔