1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر ’آسیبوں‘ کے بسیرے

عاطف توقیر27 اگست 2016

یونان اور مقدونیہ کی سرحدی گزرگاہ اڈومینی بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی اپنی سرحدیں بند کر دیے جانے اور وہاں ہزاروں مہاجرین کے پھنس جانے کی وجہ سے مشہور تھی، مگر اب بھی کئی امیدیں بہت سے مہاجروں کو وہیں باندھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jr2B
Griechenland Flüchtlinge bei Idomeni
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff

یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر ایک کینٹین میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، تو تاحد نگاہ پھیلی خاموشی دم توڑ دیتی ہے۔ دوسرے سرے سے کھانے کا آرڈر کچھ یوں لکھوایا جاتا ہے، پانچ پلیٹ بھنڈی، تین بُھنی مرغیاں، چار سلاد اور دس بوتل پانی‘‘۔ یونانی ریلوے کی اس پوسٹ میں بنی اس کینیٹن میں کھانے کا آرڈر دینے والے نے اپنا پتا نہیں بتایا اور پتا بتایا بھی کیسے جاتا، قریبی جنگلوں میں جانے کا راستہ تو ہے، مگر وہاں چھپے مہاجرین کی ایک پوری برادری تک پہنچنے کا براہ راست کوئی نہیں۔

اس لیے کھانے کی یہ ترسیل اس قریبی جنگل کے باہر کی جاتی ہے اور مہاجرین میں سے کوئی آ کر یہ کھانا وصول کر کے درختوں کی اوٹ پہن لے لیتا ہے۔ بلوط کے درختوں، چٹانوں اور گرم دھول سے اٹا یہ پورا علاقہ یونان سے غیرقانونی طور پر مقدونیہ میں داخل ہونے والوں کے لیے نظروں میں آئے بغیر سرحد عبور کرنے کے لیے بہترین ہے۔

Idomeni Grenze Polizei Flüchtlinge
مقدونیہ نے یونان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر رکھی ہےتصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

چند ماہ قبل اڈومینی میں شدید بارشوں کی وجہ سے تالاب بن جانے اس کیچڑ زدہ علاقے میں آٹھ ہزار مہاجرین خیمے ڈالے موجود تھے۔ اس سے قبل اسی سرحدی گزرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں افراد نے بلقان ریاستوں کے ذریعے مغربی اور شمالی یورپی ممالک تک رسائی حاصل کی، مگر رواں برس مارچ میں مقدونیہ اور دیگر بلقان ملکوں نے اپنی اپنی قومی سرحدیں بند کر دیں، تاہم یہ ہزاروں مہاجرین کئی ہفتوں تک اس امید میں یہاں خیمے ڈالے موجود رہے کہ شاید انہیں سرحد عبور کرنے دے دی جائے۔

اس علاقے میں موجود زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھا، جو جنگ اور غربت کی وجہ سے ایک بہتر مستقبل کے خواب کے تعاقب کرتے مہاجرت کے اس انتہائی خوف ناک سفر پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔

اڈومینی کے ٹرین اڈے پر قائم یہ چھوٹی سے کینٹین چلانے والے ستراتوس کا کہنا ہے، ’’ہمیں کال موصول ہوتی ہے اور ہم مطلوبہ کھانا چار یا پانچ طے کردہ مقامات تک لے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایک جگہ نہیں ہوتی۔‘‘

ستراتوس کو بھی اس ساری محنت کا ثمر اضافی آمدنی کی صورت میں مل جاتا ہے، کیوں کہ ان مہاجرین کے علاوہ اس کے دیگر گاہک کی تعداد اکا دکا ہی ہے۔

ستراتوس کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کھانے کا آرڈر دے کر مہاجرین کھانا وصول کرنے نہ آئیں، ’’ایک آدھ بار ہی ایسا ہوا ہے کہ مہاجرین نے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو جانے کے خوف سے کھانا وصول نہیں کیا۔ مگر عمومی طور پر سب ٹھیک ہی رہتا ہے۔‘‘

رواں برس مئی میں یونانی پولیس نے اڈومینی میں قائم عارضی مہاجر بستی خالی کرا دی تھی، مگر مہاجرین کی مغربی یورپ پہنچنے کی امیدوں نے اس سرحدی علاقے میں واقع گھنے جنگل کو ’آسیب زدہ‘ کر دیا ہے، جہاں درختوں کی اوٹ سے کوئی شخص برآمد ہوتا ہے، کھانا وصول کرتا ہے، پیسے ادا کرتا ہے اور بس غائب ہو جاتا ہے۔‘‘