1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

یورپی یونین کا ہنگامی گیس منصوبے کے معاہدے پر اتفاق

26 جولائی 2022

یورپی یونین نے روسی گیس کی بندش کے خدشے کے پیش نظر اس بلاک میں گیس کے استعمال میں کمی کے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات موسم سرما کی تیاری کے لیے ناکافی ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/4EgHi
Belgien Brüssel | EU Hauptquartier - Ursula von der Leyen: Vorstellung des Gas Notfallplans
تصویر: Virginia Mayo/AP/picture alliance

یورپی یونین کے رکن ممالک نے آج منگل 26 جولائی کو گیس کی کھپت کو کم کرنے کے ایک ہنگامی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے کیونکہ یورپ میں ایسے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ روس بالآخر پہلے سے ہی گیس کی کم ترسیل کو مکمل طور پر روک سکتا ہے۔ اس معاہدے کا اعلان جمہوریہ چیک کی طرف سے کیا گیا ہے، جو اس وقت یورپی یونین کی ششماہی صدارت کی سربراہی کر رہا ہے۔

چیک صدارتی دفتر نے ٹوئٹر پر لکھا، ''یہ مشن ناممکن نہیں تھا۔‘‘ یورپی یونین کی طرف سے اس منصوبے پر اتفاق ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب روس 27 جولائی سے یورپ کو گیس کی ترسیل میں مزید کمی کرنے والا ہے۔ فروری میں یوکرین پر حملے سے پہلے یورپی یونین گیس کی اپنی مجموعی ضروریات کا 40 فیصد روس سے حاصل کر رہی تھی۔

 روس نے گیس کی ترسیل میں کمی کی تکنیکی وجوہات بیان کی ہیں لیکن یورپی یونین کے زیادہ تر سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن گیس کو ''بطور ہتھیار استعمال‘‘ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں اور روس اس کے ردعمل میں ایسا کر رہا ہے۔

وزراء نے کیا کہا ہے؟

پورے بلاک کے توانائی کے وزراء نے گزشتہ ہفتے یورپی کمیشن کے ذریعے پیش کردہ معاہدے کے اس ورژن پر اتفاق کیا ہے، جس میں یونین کے ہر رکن ملک سے اگست سے اگلے برس مارچ تک اپنی گیس کی کھپت کو 15 فیصد تک کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پیش کیے گئے ابتدائی منصوبے کو کئی رکن ممالک کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا کیوں کہ یورپی یونین کے تمام ممالک ہنگامی حالت میں اس ہدف کو پورا کرنے کے پابند تھے۔

یورپی یونین کی انرجی کمشنر کادری سمسن کا کہنا تھا، ’’گیس کی ترسیل میں کمی ایک سیاسی قدم ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسی وجہ سے گیس کی ضروریات کو احتیاطی طور پر کم کرنا ایک زبردست حکمت عملی ہے۔‘‘

جمہوریہ چیک کے صنعت و تجارت کے وزیر جوزف سکیلا نے کہا کہ بلاک کو روسی گیس کی منظم کٹوتیوں کا جواب دینے کے لیے ''جلد از جلد‘‘ کارروائی کرنی چاہیے۔ جوزف سکیلا کا مزید کہنا تھا، ''پوٹن گیس کی سپلائی کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے بلیک میلنگ کا گھناؤنا کھیل کھیلتے رہیں گے۔‘‘

رکن ممالک میں اختلافات

پولینڈ کی وزیر توانائی انا ماسکوا نے کہا ہے کہ زیر بحث منصوبہ ان کے ملک کے لیے ''نیوٹرل‘‘ تھا کیونکہ اس میں ملکوں کو اہداف کا پابند نہیں بنایا گیا۔ ماسکوا کا مزید کہنا تھا، ''ہم کسی بھی ایسے فیصلے کو قبول نہیں کر سکتے، جو ممالک پر مسلط کیا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''توانائی کی حفاظت ایک قومی استحقاق ہے۔‘‘

انا ماسکو نے یہ بھی کہا کہ پولینڈ کو گیس بچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے گیس ذخائر بھرے ہوئے ہیں۔

 آئرلینڈ کے وزیر ماحولیات ایمون ریان نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی گیس کی سپلائی میں بڑی کٹوتی ہو تو پھر 15 فیصد گیس کی بچت ناکافی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''لیکن یہ گیس بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے اور میرے خیال میں روس کو جو سگنل بھیجا جانا ہے، وہ بھی اہم ہے۔‘‘

صدر پوٹن ’مکر و فریب کا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جرمنی

 جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے برلن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیس کی سپلائی میں کمی پر بلاک کو تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے گیس کی بچت کے اقدامات کو مربوط کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا ہے۔

دریں اثناء جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یورپی یونین کے زیادہ تر ممالک کو اب بھی 15 فیصد گیس بچت کا پابند بنایا جائے گا۔ تاہم آئرلینڈ اور مالٹا جیسے ممالک یورپی یونین گیس نیٹ ورک سے منسلک نہیں ہیں اور انہیں استثنیٰ حاصل رہے گا۔ 

ان ممالک کے لیے کمزور بچتی اہداف رکھے جائیں گے، جو گیس برآمد کرتے ہیں یا جن کا گیس کا ذخیرہ تقریباً بھر چکا ہے۔

اسی طرح کیمیکلز اور اسٹیل جیسی بعض صنعتوں کو بھی چھوٹ مل سکتی ہے۔

اس منصوبے کے خلاف مزاحمت کی قیادت اسپین اور پرتگال نے کی، جن کا یورپی یونین کے گیس پائپ لائن نیٹ ورک سے بہت کم تعلق ہے۔ یونان نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ منصوبہ اس کی معیشت اور شہریوں پر بہت زیادہ بوجھ ڈالے گا۔

دوسری جانب جرمنی ان ممالک میں شامل ہے، جو روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اس نے مجوزہ ہنگامی منصوبے کی بھرپور حمایت کی ہے۔

ا ا/ا ب ا ( روئٹرز، ڈی پی اے)