1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتونیو تاجانی لیبیا میں مہاجرین کے مراکز کے قیام کے حامی

عاطف بلوچ، روئٹرز
27 فروری 2017

یورپی پارلیمان کے نئے سربراہ انتونیو تاجانی لیبیا میں مہاجرین کے محفوظ مراکز قائم کیے جانے کے حامی ہیں۔ لیبیا کے ذریعے ہزارہا تارکین وطن یورپی یونین میں داخلے کے لیے بحیرہء روم کا خطرناک سفر اختیار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YIU1
Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

یورپی پارلیمان کے نئے سربراہ انتونیو تاجانی کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے یورپی یونین کو لیبیا کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ پیر کے روز جرمن اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک بیان میں تاجانی نے کہا کہ ان مراکز میں بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ پہنچنے کی کوشش سے قبل ہی ان مہاجرین کو ان مراکز میں پہنچا دیا جانا چاہیے اور وہاں ڈاکٹرز تعینات کیے جانا چاہییں جب کہ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء بھی بہم پہنچائی جانا چاہییں۔ لیبیا سے ہزاروں افراد شکستہ کشتیوں کے ذریعے اطالوی جزائر کا رخ کر رہے ہیں، جب کہ گزشتہ برس اس سفر کے دوران ریکارڈ تعداد میں تارکین وطن بحیرہء روم کی موجوں کی نذر ہو گئے تھے۔ یورپی پارلیمان کے نئے سربراہ خود بھی اٹلی سے تعلق رکھتے ہیں۔

Straßburg EU-Parlament Parlamentspräsident Tajani
تاجانی کے مطابق اس سلسلے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہےتصویر: Getty Images/AFP/P. Hertzog

اپنے اس بیان میں تاجانی نے کہا، ’’ان مراکز کے لیے سرمایہ موجود ہونا چاہیے، تاکہ وہاں رہنے والے تارکین وطن کئی ماہ یا برس پورے انسانی احترام کے ساتھ وہاں گزار سکیں۔‘‘ تاہم انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ مہاجرین کے یہ مراکز حراستی مراکز ہرگز نہیں ہونا چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی افریقہ میں شدت پسند گروہ بوکوحرام کی کارروائیوں کے تناظر میں ترک وطن پر مجبور ان تارکین وطن کی بھرپور امداد کی جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افریقہ سے تارکین وطن کی یورپی یونین کی جانب نقل مکانی کو روکنے کے لیے کئی ارب یورو درکار ہوں گے۔ ’’ہمیں ایک طرح سے مارشل پلان کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’اب وقت ہے کہ ہم آج اقدامات کریں ورنہ اگلے بیس برسوں میں افریقہ سے یورپ پہنچنے والوں کی تعداد کئی ملین تک پہنچ جائے گی۔‘‘

تاجانی کا کہنا تھا کہ اربوں یورو کے سرمائے سے زراعت اور دیگر شعبوں میں بھی افریقی ممالک کی مدد کی جانا چاہیے۔ تاجانی کے مطابق جدید زراعت اور مشترکہ اقدامات کے ذریعے اقتصادی اور سفارتی حکمتِ عملی کے تحت اس انسانی بہاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔