1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں خونریز خانہ جنگی کا خطرہ

26 مئی 2011

یمن کا دارالحکومت صنعاء جمعرات کی صبح ہونے والے دھماکوں سے لرز اٹھا۔ صدر عبداللہ صالح کی حامی فورسز اور ایک بڑے قبائلی سردار کے حامیوں کے مابین لڑائی سے وہاں خانہ جنگی کا خطرہ اور بھی شدید ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11OLg
تصویر: dapd

صنعاء میں قبائلی سردار صادق الاحمر اور ملکی صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ جمعرات کی صبح صنعاء میں شدید نوعیت کے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صادق الاحمر کے حامیوں کی طرف سے سرکاری عمارتوں پر قبضے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

دوسری جانب یمنی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ ایک اسلحہ ڈپو میں دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ابھی تک آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق ملکی دارالحکومت پر شہر کے باہر سے بھی گولے پھینکے جا رہے ہیں جبکہ فائرنگ کی آوازیں پورے شہر میں سنی جا سکتی ہیں۔ یمن میں تشدد کی اس تازہ ترین لہر کا آغاز گزشتہ اتوار کو اس وقت ہوا، جب صدر صالح نے اپنے اقتدار سے الگ ہونے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

NO FLASH Jemen Sanaa Militär Soldaten Saleh
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق مسلح جھڑپوں میں گزشتہ اتوار سے لے کر اب تک کم ازکم 69 افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: AP

دارالحکومت صنعاء سے 32 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ارہب کے علاقے میں بھی سرکاری دستوں کی مقامی قبائلیوں کے ساتھ ایک بڑی مسلح جھڑپ ہوئی ہے، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ اب یہ لڑائی ریاستی دارالحکومت سے باہر منتقل ہوتی جا رہی ہے اور پورا ملک خونریز خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایک یمنی فوجی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ ٹیلی وژن کو بتایا کہ ارہب میں ہونے والی جھڑپ میں 6 سرکاری فوجی ہلاک جبکہ 21 زخمی ہو گئے۔

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق مسلح جھڑپوں میں گزشتہ اتوار سے لے کر اب تک کم ازکم 69 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 20 سرکاری فوجی تھے اور 46 ہلاک شدگان قبائلی سردار صادق الاحمر کے حامی۔

اس لڑائی کے باعث درجنوں خاندان دارالحکومت چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ لے چکے ہیں۔ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ حکومتی فوجی اہلکاروں نے دارالحکومت کے تمام داخلی راستے بند کر دیے ہیں۔ عینی شاہد مراد عبداللہ کا کہنا ہے، ’صنعاء میں رہنا اب ممکن نہیں رہا۔ لڑائی شہر کے تمام حصوں تک پھیل رہی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں مارا نہ جاؤں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے آبائی گاؤں چلا جاؤں۔‘

NO FLASH Jemen Zusammenstöße
دارالحکومت صنعاء سے 32 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ارہب کے علاقے میں بھی سرکاری دستوں کی مقامی قبائلیوں کے ساتھ ایک بڑی مسلح جھڑپ ہوئی ہےتصویر: picture alliance/dpa

کئی دیگر عینی شاہدین اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ الاحمر کے حامی اب تک کئی اہم سرکاری عمارتوں پر قابض ہو چکے ہیں، جن میں وزارتِ تجارت کی بلڈنگ کے علاوہ وزارتِ سیاحت اور سرکاری نیوز ایجنسی صنعا کے دفاتر بھی شامل ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق جمعرات کو وزارت داخلہ کی عمارت پر بھی حملہ کیا گیا، جہاں لڑائی آخری خبریں آنے تک جاری تھی۔

گزشتہ روز 32 برسوں سے برسر اقتدار صدر صالح کے خلاف دارالحکومت میں ایک ریلی بھی نکالی گئی تھی، جس میں ان سے خونریزی کی وجہ بنے بغیر اقتدار سے الگ ہو جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اسی دوران صدر صالح کے طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’میں اقتدار تو چھوڑ دوں گا مگر یمن نہیں چھوڑوں گا۔ میں بیرونی طاقتوں کے حکم نہیں مانوں گا۔‘ اسی بیان میں صدر نے مزید کہا کہ یمن کو نہ تو ایک ناکام ریاست اور نہ ہی القاعدہ کی آما جگاہ بننے دیا جائے گا۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں