1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہونڈوراس: فوجی بغاوت

رپورٹ :عابد حسین ، ادارت: ندیم گِل28 جون 2009

وسطی امریکہ کے ملک ہونڈوراس میں فوجی بغاوت سے کیا اقتدار کی رسہ کشی کا عمل ختم ہو گیا ہے یا یہ عمل اب ایک نئی گلی میں داخل ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Icsk
ہونڈوراس کا جھنڈا

وسطی امریکہ کے ملک ہونڈوراس میں فوجی بغاوت سے خطے کے دوسرے ملکوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ہونڈوراس کے تمام فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جمہوری اقدار کا احترام کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے عمل کو جاری رکھیں۔ امریکی صدر نے تمام اختلافی معاملات کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اِسی طرح امریکی براعظموں کی تنظیم OAS کے سربراہ کی جانب سے بھی فوجی بغاوت کی مذمت سامنے آئی ہے۔ یورپی یونین نے بھی فوجی بغاوت کے بعد کی صورت حال، جس میں صدر کی گرفتاری شامل ہے ،کو ایک قابلِ مذمت واقعہ قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے صدارت والے ملک چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ Jan Kohou نے اِس کو دستور کے منافی اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ وینزویلا کے صدر اُوگو شاویز کی جانب سے بھی مذمتی بیان سامنے آیا ہے اور کہا ہے کہ اِس بغاوت کے پس پردہ امریکی ہاتھ ہے۔

Kaffeepflücker in Honduras Kaffee-Ernte in Honduras
ہونڈوراس کافی کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

ہونڈوراس میں فوجی بغاوت کے بعد پہلی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ فوج نے صدر Manuela Zelaya کو گرفتار کر لیا ہے۔ مگر اب معلُوم ہوا ہے کہ وہ کوسٹا ریکا پہنچ گئے ہیں۔ وہ کِن حالات میں کوسٹا ریکا پہنچے ہیں اِس کی ابھی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن کوسٹا ریکا کے صدارتی حلقوں کے خیال میں ہونڈوراس کے صدر سیاسی پناہ کے طلبگار ہو سکتے ہیں۔ اُن کی موجودگی کی ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے تصدیق کردی ہے۔ اِس مناسبت سے سفارتکاروں کو San Jose کے ہوائی اڈے کے قریب سکیورٹی بیس پر جمع ہوتے بھی دیکھا گیا۔ کوسٹا ریکا میں ٹیلی ویژن کو انٹر ویو دیتے ہوئے معزول صدر Manuela Zelaya کا کہنا تھا کہ وہ فوجی بغاوت کے ساتھ ساتھ اغوا کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے نئی فوجی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ سفارتکاروں سے ملاقاتوں کے سلسلے کے علاوہ اپنی ملک کے مقتدر حلقوں سے بات چیت کے لئے بھی تیار ہیں۔

Hurrikan Felix in Honduras
ہونڈوراس کا شمار غریب ملکوں میں کیا جاتا ہے۔تصویر: AP

ہونڈوراس کے صدر Manuela Zelaya کو اُس دِن فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جس روز اُن کے ملک میں دستوری ترامیم کے تناظر میں ریفرنڈم کا انعقاد تھا۔ دستوری ترامیم ریفرنڈم سے قبل ہی متنازعہ بن چکی تھی۔ ہونڈوراس میں اقتدار کی رسہ کشی کا عمل جاری تھا کو فوج نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ صدرManuela Zelaya کو ریفرنڈم کے سلسلے میں کئی سرکاری اداروں کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ وہ اپنی مدت صدارت میں اضافے کی متمنی ہونے کے ناطے دستور میں ترمیم چاہتے تھے۔ اُن کے ملک کے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ،کانگریس کی جانب سے بھی ریفرنڈم کی مخالفت سامنے آ چکی تھی۔ فوج کی جانب سے ریفرنڈم کے دوران انتخابی سامان کی ترسیل نے کرنے کی بنا پراُنہوں نے فوج کے چیف General Romeo Vasquez Velasquez کو برطرف کردیا تھا۔ جمہوری ہونڈوراس وسطی امریکہ کا ملک ہے۔ یہ سابقہ ہسپانوی کالونی تھا۔ اِس کی ایک جانب ساحلی پٹی کیریبئن سمندر اور خلیج ہونڈوراس سے جڑی ہے تو سرحدیں گوئٹے مالا، نِکراگوا اور السیلواڈور کے ممالک سے ملی ہوئی ہیں۔ اِس کا دارالحکومت Tegucigalpa ہے۔ ہونڈوراس کی اسی فی صد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔