1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہفتہء سبز: برلن میں عالمی نمائش جاری

26 جنوری 2011

ان دنوں وفاقی جرمن دارالحکومت میں جاری گرین ویک نامی اشیائے خوراک کی بین الاقوامی نمائش کا مرکزی موضوع یہ ہے کہ عالمی سطع پر زمین پر آباد انسانوں کے لیے اشیائے خوراک کی کافی دستیابی کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/105cH
’گرین ویک‘ میں اپنی مصنوعات کی نمائش کرنے والا ایک یورپی تاجر

عالمی آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے خاص طور پر زرعی ملک قرار دی جانے والی ریاستوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ انہی ملکوں میں لاطینی امریکی ریاستوں برازیل، ارجنٹائن، یوروگوائے اور پیرا گوائے کا شمار بھی ہوتا ہے۔ یہ چاروں ملک مل کراپنی ایک ایسی مشترکہ منڈی بھی قائم کر چکے ہیں، جسے Mercosur کا نام دیا جاتا ہے۔

برلن کی آئندہ اتوار کے دن تک جاری رہنے والی اس عالمی نمائش میں یوروگوائے کی نمائندگی اس ملک کے وزیر زراعت تبارے آگوئرے کر رہے ہیں۔ ان کے ملک میں زرعی شعبے کو ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یوروگوائے کو ان دنوں گزشتہ ایک عشرے کے دوران چوتھی بار خشک سالی کا سامنا ہے، حالانکہ عام حالات میں وہاں اتنی زیادہ خشک سالی پوری ایک صدی میں دیکھنے میں آتی ہے۔

Grüne Woche Berlin 2011 Flash-Galerie
نمائش میں افغانستان کےسٹال پر رکھی گئی زعفران کی مختلف قسمیںتصویر: DW

یوروگوائے کے وزیر زراعت گرین ویک کے موقع پر جرمن، لاطینی امریکی ایسوسی ایشن کی طرف سے اہتمام کردہ ایک تقریب کے مرکزی مقرر بھی تھے۔ بڑے زرعی ملکوں میں شمار ہونے والی میرکوسر ریاستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے پہلا ذکر سب سے بڑے خطرے کا کیا۔ ان کی مراد ماحولیاتی تبدیلیاں تھیں۔

انہون نے کہا، ’’ماحولیاتی تبدیلیاں کوئی مستقبل کا نہیں بلکہ آج کا مسئلہ ہیں۔ فوڈ سکیورٹی کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس مسئلے کا حل بڑی ذمہ داری سے نکالنا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی یقینی بنانا چاہیے کہ بڑی زرعی معیشتوں میں شمار ہونے والے ملک اپنے فیصلے کرتے ہوئے دیرپا اقتصادی ترقی کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں فوڈ سکیورٹی کی صورتحال بھی خطرے میں ہے۔‘‘

لاطینی امریکہ میں یوروگوائے ایک ایسا ملک ہے، جو ہر سال اتنی زیادہ زرعی پیداوار برآمد کرتا ہے، جو اس ملک میں استعمال ہونے والی زرعی پیداوار کے سالانہ حجم کے پانچ گنا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ یوروگوائے جنوبی امریکی براعظم کی ایک ایسی ریاست ہے، جس کی مجموعی آبادی تو صرف تین ملین ہے لیکن وہاں مویشیوں کی تعداد 12 ملین اور بھیڑوں کی تعداد 20 ملین سے زائد ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں دس فیصد قابل کاشت رقبہ انہی چار ملکوں میں ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی امریکہ میں کئی ملین ہیکٹر زمین ایسی بھی ہے، جہاں ابھی تک صرف گھاس اگتی ہے مگر اسے بھی پیداواری زرعی رقبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

Flash-Galerie Grüne Woche 2011 Polen
امسالہ ’گرین ویک‘ میں خصوصی پارٹنر ملک پولینڈ کے مرکزی سٹال کا ایک منظرتصویر: DW

میرکوسر ملکوں کی معیشتیں اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہیں کہ یورپی ملک اس کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہی چار ملک اس وقت دنیا بھر میں پروٹین پیدا کرنے والا سب سے بڑا خطہ بھی ہیں۔ مشترکہ منڈی میرکوسر کے علاقے میں زرعی پیداوار کا عالم یہ ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی سویا کی پھلیوں کا نصف حصہ، مکئی کی عالمی پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ اور گائے کے گوشت کی عالمی پیداوار کا ایک چوتھائی سے بھی زیادہ حصہ اس علاقے سے حاصل کیا جاتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ میرکوسر منڈی کی ریاستوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ پیداوار میں اضافہ ہر قیمت پر کیا جائے۔ یہ جنوبی امریکی ملک اپنے ہاں زرعی ترقیاتی کوششیں کرتے ہوئےتحفظ ماحول کو بھی ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔

Mercosur Logo
جنوبی امریکہ کی مشترکہ منڈی میرکوسر کا لوگو

یوروگوائے کے وزیر زراعت آگوئرے کہتے ہیں، ’’اس سلسلے میں یوروگوائے نے ایک ایسے تجرباتی منصوبے پر عملدرآمد شروع کیا ہے، جس کا مقصد گرین ایگریکلچر سے متعلق تجربات جمع کرنا ہے۔ گرین سے مراد زیادہ مؤثر، دیرپا اور سماجی حوالے سے زیادہ قابل قبول زرعی طریقے ہیں۔‘‘

میرکوسر نامی مشترکہ منڈی کی عمر یورپی یونین سے بہت کم ہے۔1991میں قائم ہونے والےاس اقتصادی اتحاد نے اب امریکہ اور یورپ کا کم از کم زرعی پیداواری حوالے سے برابری کی سطح پر مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یورپی یونین میرکوسر ریاستوں سے آنے والی زرعی برآمدات کی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔

اسی لیے اب یورپی کمیشن یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ اگر جنوبی امریکہ کی ان چاروں ریاستوں سے آنے والی زرعی مصنوعات پر درآمدی محصولات ختم کر دیے جائیں، تو اس فیصلے کے یورپی یونین کے زرعی شعبے پر کیا اثرات مرتب ہو ں گے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عصمت جبیں