1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہری پرساد چورسیا کی بانسری کی تانیں دلوں پر راج کرتی ہیں

نسیم بیگم، ممبئی4 مارچ 2016

سنگیت کے معاملے میں بہت زرخیز سرزمین بھارت کی کئی معتبر ہستیاں دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ ان میں عظیم فنکار ہری پرساد چورسیا بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی بانسری کی تانوں سے ایک زمانے کا من موہ لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I64Y
پنڈت ہری پرساد چورسیا اب تک اپنی کارکردگی کے اعتراف میں پدم بھوشن اور پدم وبھوشن سمیت متعدد اعزازات حاصل کر چکے ہیں
پنڈت ہری پرساد چورسیا اب تک اپنی کارکردگی کے اعتراف میں پدم بھوشن اور پدم وبھوشن سمیت متعدد اعزازات حاصل کر چکے ہیںتصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar

ایک نامور پہلوان کا بیٹا بانسری سے دلوں کو موہ لینے والی تانیں لگانے والا ایک عظیم فنکار کیسے بنا، اس حوالے سے ممبئی میں نسیم بیگم نے ڈی ڈبلیو اردو کے لیے پنڈت ہری پرساد چورسیا کے ساتھ اُن کے گھر پر خصوصی گفتگو کی۔ سوال و جواب کی صورت میں یہ انٹرویو پیشِ خدمت ہے:

سوال: ہری پرساد چورسیا جی، سب سے پہلے تو آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کو بانسری کا شوق کیسے ہوا؟

جواب: بانسری بجانے کا شوق تو ہوش سنبھالتے ہی ہو گیا تھا۔ بس ایسے ہی دل کو بہلانے کے لیے بجایا کرتا تھا۔ تب لوگوں نے کہا کہ تم بہت اچھی بانسری بجاتے ہو، اس میں اور محنت کر و تو ضرور نام کماﺅ گے۔ یہ بات میرے دل کو لگی اور میں نے سیکھنے کی کوشش شروع کر دی اور آج بھی میری یہ کوشش جاری ہے۔

سوال: تو اس سلسلے میں آپ نے کس استاد سے رہنمائی حاصل کی؟

جواب: آکاش گنگا میں میری گرو ماں رہتی ہیں، جن کا نام ہے شریمتی اَنّا پورنا دیوی۔ وہ ستار اور سُربہار نواز ہیں اور آں جہانی استاد علاﺅالدین کی بیٹی ہیں۔ اُستاد علاﺅالدین جی کے شاگرد تھے، پنڈت روی شنکر اور اُستاد علی اکبر صاحب۔ تو میں آج بھی اپنی گرو ماں کے پاس جاتا ہوں اُن سے آشیر واد لیتا ہوں اور سیکھتا ہوں۔

سوال: جی بالی وُڈ میں آپ کی بانسری نے کتنا رنگ جمایا؟

جواب: بانسری کا بہت سی فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ میں نے موسیقار کے طور پر بھی کئی فلمیں کی ہیں، جیسے چاندنی، فاصلے، لمحے، سلسلہ، وجے، پرم پرا، ٹونٹی سیون ڈاﺅن، صاحباں، ڈر وغیرہ۔ ان نغموں کو سننے والوں نے خوب پسند بھی کیا لیکن اب میں مکمل طور پر کلاسیکی سنگیت سے جڑا ہوا ہوں۔ یہاں اب میں نے سنگیت سکھانے کے لیے ورنداون کے نام سے ایک اکیڈمی قائم کی ہے۔ اس میں بھارت بھر سے اور باہر کے ممالک سے بھی طالب علم آتے ہیں اور بانسری سیکھتے ہیں، سنگیت کی تعلیم لیتے ہیں۔

سوال: اچھا یہ بتائیں کہ آپ نے بانسری کے تعلق سے کوئی کتاب بھی لکھی ہے؟

جواب: میں نے تو نہیں لکھی لیکن دیگر لوگوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ دو کتابیں تو میرے ہی بارے میں لکھی گئی ہیں۔ ایک تو بائیو گرافی ہے اور ایک سنگیت کے تعلق سے لکھی گئی ہے۔

نامور بانسری نواز کی باتیں، ڈی ڈبلیو اردو کے لیے

سوال: آپ کے شاگرد ساری دُنیا میں ہیں تو آپ کس طرح اُن کی سرپرستی کرتے ہیں؟

جواب: جی اسی لیے میں نے ’گروکل‘ کھولا ہے، جسے ورنداون کہتے ہیں۔ ایک تو ممبئی شہر میں ہے اور دوسرا اڑیسہ کے بھوبنیشور شہر میں ہے۔ اُس کو بھی ہم ورنداون ہی کہتے ہیں۔ تو ان اکیڈمیوں میں ساری دُنیا سے لوگ آتے ہیں اور بانسری کی تعلیم لیتے ہیں اور میرا اڑیسہ اور ممبئی آنا جانا لگا رہتا ہے۔

سوال: ہری پرساد جی یہ بتائیں کہ حکومت کو بانسری کے فن کے تعلق سے کون کون سے قدم اُٹھانے چاہییں؟

جواب: جی میں سمجھتا ہوں صرف بانسری ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر سنگیت کے لیے سرکار کو اقدامات کرنے چاہییں اور اسکولوں اور کالجوں میں بطور ایک مضمون کے اسے بھی اہمیت دینی چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ہارمنی کی قدر ہو۔ سنگیت لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، آپس کی نا اتفاقی دور ہو سکتی ہے، سنگیت میں حصہ لیں گے تو دل کو بھی سکون ملے گا اور آپس میں لوگ مل جُل کر رہیں گے۔

سوال: آپ اپنی زندگی میں کن شخصیات سے خاص طور پر متاثر رہے؟

جواب: اپنی گرو ماں شریمتی اَنّا پُرنا دیوی سے اور اپنے پِتا پنڈت شری لال پہلوان سے۔ وہ پہلوانی کرتے تھے اور اُن کا کافی نام تھا۔ میری ماں تو بچپن ہی میں گذر گئی تھیں۔

ہری پرساد چورسیا کا شمار دنیا کے نامور ترین بانسری نوازوں میں ہوتا ہے
ہری پرساد چورسیا کا شمار دنیا کے نامور ترین بانسری نوازوں میں ہوتا ہےتصویر: Imago/Indiapicture

سوال: آپ کو کئی اعزازات ملے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب: (مسکراتے ہوئے) سب سے بڑا اعزاز تو لوگوں کے دلوں میں عزت اور مان ہے، ہاں سرکار کی طرف سے کئی اعزازات ملے ہیں، پدم بھوشن، پدم وبھوشن وغیرہ وغیرہ۔

ورندا ون کے پُرسکون ماحول میں بانسری کے سُر کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ اسی کے ساتھ ہم نے ان سے رخصت لی۔