1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گٹن برگ کا استعفیٰ: امید کی علامت سے الوداع

2 مارچ 2011

کیا جرمن وزیر دفاع گٹن برگ اپنے استعفے سے ان مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے ہیں، جن کا انہوں نے مستعفی ہونے کے اعلان کے وقت اظہار کیا تھا؟ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کی تجزیہ کار بیٹینا مارکس کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/10Rja
تصویر: dapd

اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں دوسرے مصنفین کی تحریروں کو نام لیے بغیر شامل کرنے سے متعلق جس اسکینڈل کا سامنا کارل تھیوڈور سوگٹن برگ کو کرنا پڑا، اس کا نتیجہ دو ہفتے کی زبردست کھینچا تانی اور ذرائع ابلاغ میں لڑی جانے والی سیاسی جنگ کے بعد منگل یکم مارچ کو بالآخر جرمنی کے اس وزیر دفاع کے استعفے کی صورت میں ہی نکلا۔

گٹن برگ نے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام سیاسی عہدوں سے اپنے مستعفی ہونے کے ساتھ وزیر دفاع کے عہدے، اپنی پارٹی، وفاقی جرمن فوج کے ارکان اور خاص کر ملک میں تحقیقی عمل کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو روکنا چاہتے ہیں۔

Flash-Galerie Zu Guttenberg Rücktritt
جرمن وزیردفاع کی واپسی کا منظرتصویر: dapd

وفاقی وزیر دفاع سو گٹن برگ اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے سے متعلق اسکینڈل کے نتیجے میں مستعفی ہو گئے۔ دو ہفتوں تک مسلسل شدید ہوتی جانے والی بحث کے دوران ان کے کردار پر رائے زنی کی گئی، ان کے قابل اعتماد ہونے پر بھی اور اس بارے میں بھی کہ آیا وہ وزیر دفاع کے بہت اہم منصب کے لیے مناسب بھی تھے؟ پھر انہوں نے اس بحث کا خود ہی خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

جن حالات و واقعات نے پچھلے چند روز کے دوران گٹن برگ کو ان کے سیاسی زوال کے اور بھی قریب کر دیا، وہ ذرائع ابلاغ میں پیٹا جانے والا ڈھنڈورا بھی تھا اور محققین کی طرف سے کیا جانے والا وہ احتجاج بھی، جس میں گٹن برگ کو جھوٹا اور دھوکے باز کہا گیا تھا۔ لیکن جو بات آخر میں سب سے بلند آواز میں سنائی دینے لگی تھی، وہ ان پر خود ان کی اپنی پارٹی کی صفوں میں کی جانے والی تنقید بھی تھی، جس کے بعد ان کے لیے کوئی راستہ باقی بچا ہی نہیں تھا۔

ایک ایسا وزیر دفاع جسے سرعام جھوٹا کہا جائے، وفاقی جرمنی سیاسی طور پر ایسے کسی رہنما کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسا سرکردہ سیاستدان جس نے پورے ملک کی تعلیمی اشرافیہ کو اپنا مخالف بنا لیا، وہ ایک ایسے ملک میں قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا، جس کے نام میں تو Bundesrepublik یا وفاقی جمہوریہ آتا ہے مگر جس کے اعلیٰ ترین نمائندے اسے علامتی طور پر Bildungsrepublik یا تعلیمی جمہوریہ بھی قرار دیتے ہیں۔

Superteaser NO FLASH Deutschland Bundestag zu Plagiats-Affäre Karl-Theodor zu Guttenberg
تصویر: dapd

گٹن برگ کو دو ہفتے پہلے ہی مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، جب واضح ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں دوسروں کی تحریروں کے حصے بھی بڑی خاموشی سے نقل کیے تھے۔ اگر وہ جلد مستعفی ہو جاتے، جیسا کہ ان سے مطالبے بھی کیے جا رہے تھے، تو وہ جرمنی کے سیاسی کلچر اور ملک کو اس نقصان سے بچا سکتے تھے، جس کا انہوں نے وزیر بنتے ہوئے اپنی حلف برداری کے موقع پر وعدہ کیا تھا۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں پچھتاوے اور شرمندگی کا اظہار کرتے تو ان کے لیے اقتدار میں واپسی کا رستہ بھی کھلا رہتا نہ کہ یہ راستہ بند ہو جاتا۔

اب لیکن ان کے لیے کسی ’کم بیک‘ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جرمن سیاست کا ایک ایسا سپر سٹار، جو عوام، خاص کر نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی کو دوبارہ اجاگر کرنے میں کامیاب رہا تھا، خود ہی اپنے انجام کے راستے پر چل نکلا۔ گٹن برگ نے بڑی بے مثال خود پسندی کے ساتھ اپنے ہی زوال کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے حالات کو اس حد تک بگڑنے دیا کہ ان کی ذات اور ان کے منصب سے متعلق ہر روز نئے انکشافات کیے جاتے رہے۔

پھر ہوا یہ کہ جرمن سیاست میں اور اپنی جماعت کی طرف سے امید کی علامت سمجھا جانے والا یہ سیاستدان رخصت ہوا، اور ایک باصلاحیت نوجوان سیاستدان کی ذات میں سے جو کچھ باقی بچا، وہ ایک خالی لبادہ تھا، شخصیت غائب ہو چکی تھی۔

Flash-Galerie Karl-Theodor zu Guttenberg
جرمن وزیر دفاع مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

اس اسکینڈل کے نتیجے میں صرف گٹن برگ کو ہی بہت نقصان نہیں پہنچا۔ اس کا نقصان وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کو بھی پہنچا، جو انہیں مسلسل وزیر دفاع کے منصب پر دیکھنا چاہتی تھیں۔ اپنی اس کوشش اور خواہش میں چانسلر میرکل ناکام ہو گئی ہیں۔ انہوں نے قابل اعتماد ہونے اور ایمانداری جیسی اقدار کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی جماعتوں کے وہ پارلیمانی دھڑے بھی اب خاموش ہیں، جنہوں نے دیکھنے والوں کو شرمندہ کر دینے کی حد تک گٹن برگ کی حمایت کی تھی۔

اس اسکینڈل کے دو ہفتے جرمنی کے لیے اذیت میں مبتلا کر دینے والے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ اپنے استعفے کے وقت بھی کارل تھیوڈور سو گٹن برگ کو خود پر تنقید کر سکنے یا پشیمانی کے اظہار کے لیے کوئی لفظ نہ مل سکے۔ اسی لیے ان کے استعفے کو بھی احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ گٹن برگ گزشتہ کئی عشروں کے دوران جرمن سیاست کا سب سے زیادہ نا امید کر دینے والا تجربہ ثابت ہوئے ہیں۔

تحریر: بیٹینا مارکس

ترجمہ: مقبول ملک

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں