1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گورنر کا عہدہ اور گورنر ہاؤس میں ہونے والی شاہ خرچیاں

25 نومبر 2022

جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار اور نو آبادیاتی نظام کی، جو باقیات رہ گئی ہیں، ان میں سے ایک کا نام گورنر بھی ہے۔ کیا ہمیں آج بھی اس عہدے پر عوام کے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے؟

https://p.dw.com/p/4K2kp
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

ویسے تو باقی سبھی آئینی عہدے یا تو عوام یا منتخب نمائندوں کے ذریعے چُنے جاتے ہیں یا ان کی تقرری کے لیے کوئی پیمانے ہوتے ہیں۔ فقط گورنر ایک ایسا عہدہ ہے، جس پر براجمان ہونے کے لیے بس برسر اقتدار پارٹی سے یا پھر طاقتور افراد کے ساتھ اچھا رشتہ ہونا چاہیے۔

اب گورنر بن کر اگر دماغ خراب نہ ہو تو ایسا کیسا ہو سکتا ہے؟ کالج کے زمانے میں مجھے راجستھان کے گورنر ہاؤس، جس کو راج بھون کہتے ہیں، میں ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا۔  کیونکہ میری ایک دوست کے دادا اس صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ راج بھون کیا تھا، بس ایک سپر لگژری ریزورٹ تھا۔

آگے پیچھے گھومتے  ملازم، خوبصورت لان اور پروٹوکول ایسا تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ میں کسی دوسری دنیا میں آ گئی ہوں۔

گورنر صاحب جب باہر نکلتے تھے تو سپر لگژری گاڑیوں کی قطاریں ساتھ میں چلتی تھیں۔ ہٹو، بچو کا شور سا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی شاہی دور میں ٹائم مشین کے ذریعے لوٹ گئے ہیں۔

یہ صرف راجستھان کے راج بھون کا ہی قصہ نہیں ہے بلکہ بھارت کے ہر صوبے میں یہ بھون اتنے دلکش اور پرتعیش بنے ہیں کہ جب گورنر صاحب کی معیاد ختم ہوتی ہے اور ان کو یہ گھر خالی کرنا پڑتا ہے، تو جیسے ان کے جسم سے کوئی روح نچوڑ لیتا ہے۔

ان میں سے سے قابل رحم حالت جموں کشمیر کے گورنر کی ہوتی ہے، جب اس کو یہ عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو؟ سری نگر کے راج بھون کا محل وقوع  ہی ایسا ہے کہ جیسے جنت سے ایک  ٹکڑا اتارا گیا  ہے۔ زبروان پہاڑی سلسلے کی گود اور اس کے سامنے انتہائی خوبصورت ڈل جھیل کا نظارہ ہو تو کیسے اس کو چھوڑنے کا جی کرے گا؟

برطانوی سامراج کا تجزیہ

مجھے یاد ہے کہ 2008 ء میں گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ایس کے سنہا اپنی مدت ختم کرنے کے باوجود اس مکان کو خالی ہی نہیں کر رہے تھے اور ان کے جانشین این این وہرا عہدہ سنبھالے کے لئے سری نگر وارد ہو چکے تھے۔ جب کوئی حل نہیں نکلا تو اس وقت کے وزیر خزانہ طارق حمید کارا کو  ایک پریس بیان میں کہنا  پڑا کہ صدارتی نوٹیفکیشن کے بعد راج بھون کو خالی کرنے سے انکار کرنا ''آئینی اور قانونی مسائل‘‘ پیدا کر رہا ہے۔

اسی طرح جب 2018ء میں سابق گورنر ستیہ پال ملک کو گورنر بنایا گیا تو وہ سری نگر پہنچتے ہی سیدھے راج بھون پہنچ کر براجمان ہو گئے۔ ان کے پیش رو این این وہرا ابھی اس کو خالی کر ہی رہے تھے۔ نئےگورنرکے اس قدر اتاولے پن کی وجہ سے سبکدوش ہونے والے گورنر کا سامان ایک کمرے میں رکھوا دیا گیا۔

اگست 2020ء میں، جب منوج سنہا کو لیفٹیننٹ گورنر مقرر کیا تو ان کے پیشرو جی سی مرمو نے اس کو خالی کرنے میں خاصا وقت صرف کیا۔ سنہا نے یہ عرصہ ایک گیسٹ ہاؤس میں گزارا۔

یہ تمام واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کا گورنروں کے حوالے سے خیال کتنا درُست  تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت کی آزادی کے بعد گورنر کا عہدہ تحلیل کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی گورنروں کے زیر قبضہ ایسے عالی شان محلات کو ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا جائے اور دفتر کی دیکھ بھال پر خرچ ہونے والی رقم کو سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

لیکن آج گاندھی کے بھارت میں گورنر کا عہدہ تھکے ہوئے سیاست دانوں یا ان ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، جنہوں نے برسر اقتدار پارٹی یا افراد کو خوش کیا ہو۔

برطانوی دور میں گورنر صوبوں کا نظم و نسق چلانے کے لئے ایک اہم کارندہ ہوتا تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت بغیر کسی وزیر کے مشورے کے اپنی صوابدید پر کچھ بھی کام کر سکتا تھے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہوئے، اپنے وزراء کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند نہیں تھے۔

لیکن بھارت کے  آئین کے مسودے کے وقت، آئین کی مسودہ سازی کمیٹی کے ارکان نے محسوس کیا کہ گورنر کے کردار اور اختیارات کو کم کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تب  اس بات کا مشاہدہ کیا تھا، ''گورنر کے پاس کوئی ایسا کام نہیں ہے، جسے وہ اپنی صوابدید یا اپنے انفرادی فیصلے کے مطابق استعمال کرے۔ آئین کے اصول کے مطابق اسے  تمام معاملات میں اپنی وزارت کے مشورے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

لیکن کیا کیا جائے۔ آج بھی صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء کی کونسل کے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے گورنر کھلے عام تصادم مول لیتے ہیں۔ ماضی میں تو گورنروں نے صوبائی حکومتوں کو برخاست کیا ہے۔

اس وقت بھی مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں میں گورنر کے عہدے کا کھلم کھلا غلط استعمال کر رہی ہے۔ جنوبی ریاست کیرالہ میں حالیہ بدامنی اس کی تازہ مثال ہے۔

کیرالہ واحد بھارتی صوبہ ہے، جس پر بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسیسٹ) کی قیادت میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کی حکومت ہے۔ اس کا نظریہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جو مرکز میں حکومت کرتی ہے، سے  بلکل مختلف  ہے ۔

مرکزی اور صوبے کی  حکومت کے درمیان مسائل پر اختلاف حیرت کی بات نہیں ہے لیکن صوبے کے گورنر کے لیے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، جو حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہو اور گورنر کا ریاستی حکومت کے مطابق کام کرنے سے انکار کرنا باعث تشویش ہے۔

بھارت  کی آزادی کے بعد سے، بائیں بازو اور دائیں بازو کے دونوں نظریات علمی اور یونیورسٹی کے حلقوں میں اپنے لئے  جگہ پانے کے لیے لڑتے  رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں وائس چانسلرز اور فیکیلٹی کی تقرری ہو یا وزارت تعلیم یا وزارت ثقافت کے ماتحت مختلف خود مختار اداروں کے سربراہان کی تقرری، ان عہدوں کے لیے بائیں اور دائیں بازو کا مجادلہ مسلسل جاری ہے۔

گورنر کے عہدے کا غلط استعمال

بائیں بازو سے تعلق رکھنے  والے دانشوروں کو نہرو کے دور سے  ہی کانگریس پارٹی کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور وہ چند سال پہلے تک ان جگہوں پر حاوی رہے۔ تاہم 2014ء  میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد جیسے  ہوا کا رخ بدلنا شروع ہو گیا، دائیں بازو کے ہندو دانشوروں نے ان اداروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

کیرالہ کا حالیہ واقعہ اس سلسلے کی ایک اور کوشش ہے، جہاں مرکز ریاستی یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلر کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل بھی اسی طرح کے تصادم کے نتیجے میں بھارت کی سب سے ممتاز یونیورسٹیوں میں سے ایک، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظاہرے ہوئے تھے۔

اس سال کے شروع میں ترنمول کانگریس کی زیرقیادت ویسٹ  بنگال اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو یونیورسٹیوں کا چانسلر مقرر کیا گیا۔

تاہم یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مرکز کی جانب سے گورنر کے عہدے کا غلط استعمال کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ جواہر لال نہرو نے بھی 1959ء میں کیرالہ کی پہلی جمہوری طور پر منتخب کمیونسٹ حکومت کو برطرف کرنے کے لیے آرٹیکل 356 کا استعمال کیا  تھا۔

اندرا گاندھی کے اقتدار میں آنے کے بعد گورنر کے عہدے کا غلط استعمال زیادہ کھلے عام ہونا شروع  ہو گیا۔ تب بی جے پی کانگریس ان اقدامات کے خلاف احتجاج کرتی تھی۔

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی اپوزیشن والی صوبائی حکومتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے گورنر کے دفتر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سال کے شروع میں پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تو وہ ریاست پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیں گے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان نے سندھ حکومت کو صوبے میں گورنر راج لگانے کی دھمکی تھی۔

بھارت  ہو یا پاکستان، گورنر کا عہدہ عوامی بجٹ اور نظام پر ایک بھاری بوجھ ہے، جس کو عوام کے اوپر زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس بوجھ سے چھٹکارا پا کر کروڑوں روپے بچائے جائیں اور ان بھاری رقوم کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔