1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد دینے پر تیار ہیں‘

شیراز راج انٹرویو
9 اگست 2018

یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر ژاں فرانسوا کوتاں نے کہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں جمہوری استحکام، معاشی خوشحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد پر تیار ہے۔

https://p.dw.com/p/32u5Z
Jean-François Cautain
تصویر: eeas.europa.eu

یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر ژاں فرانسوا کوتاں نے کہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں جمہوری استحکام، معاشی خوشحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد پر تیار ہے۔

اسلام آباد میں یورپی یونین کے سفیر نے پاکستان تحریک انصاف  کے سربراہ عمران خان سے خصوصی ملاقات میں یورپی یونین کی جانب سے سکیورٹی، معیشت، تعلیم اور دیہی ترقی کے شعبوں میں نئی حکومت سے تعاون کی پیش کش کی اور پاکستان میں معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ای یو ممالک کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں بھی پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو کے نمائندہ شیراز راج نے یورپی یونین کے سفیر سے ان کی عمران خان کے ساتھ ملاقات کے حوالے ای میل کے ذریعے انٹرویو کیا۔

ڈی ڈبلیو: آپ کے بقول، یورپی یونین ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ کیا یہ مدد ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پرعمل سے مشروط ہوگی؟

ژاں فرانسوا کوتاں: ایف اے ٹی ایف کے بیشتر اراکان کی طرح یورپی یونین بھی اس تنظیم کی ایک مکمل رکن ہے۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے اور منی لانڈرنگ کے خاتمے جیسے اہداف پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور عملی کاوشوں میں شریک ہیں۔ لہذا یورپی یونین فطری طور پر اس حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت میں، اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے مطابق، اپنی بہترین کوششوں کے ذریعے حصہ ڈالی گی۔ ہم ایف اے ٹی ایف کے عملی منصوبوں اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان کی نئی حکومت کی خصوصی معاونت کے لیے تیار ہیں۔ اگر اس نوعیت کے باہمی تعاون پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو ہمیں اس شراکت کو اس طرح طے کرنا ہو گا کہ پاکستان کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہوں۔

ڈی ڈبلیو: کیا یورپی یونین پاکستان تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کی اخلاقی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے جب کہ بیشتر انتخابی مبصرین (انسانی حقوق کمشن، پلڈاٹ، فافن) قبل ازانتخابات اور انتخابات کے دن مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں؟ خود یورپی یونین کے مبصر مشن نے بھی ستائیس جولائی کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں قبل از انتخابات دھاندلی کا ذکر کیا ہے۔

کوتاں: جمہوریت یورپی یونین کا مضبوط ترین ستون ہے۔ یہ انسانی معاشرے کی ایک ایسی اخلاقی و سیاسی قدر ہے جس کی تمام دنیا میں ترویج کے لیے ہم ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی، وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر جمہوریت کے استحکام کے لیے یورپی یونین نے بہت کوششیں کی ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ، متعلقہ پاکستانی اداروں کے تعاون کے ساتھ، ہماری کوششوں کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور پاکستان کے عوام کو با اختیار اور جمہوری عمل کو مستحکم بنانے جیسے اہداف کی جانب بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔

سن 2002 سے اب تک یہ یورپی یونین کی جانب سے چوتھا الیکشن مبصر مشن پاکستان آیا تھا۔ ہمیں نہ صرف اس بات پر فخر ہے کہ ہم اس غیر معمولی کاوش میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں بلکہ ہم اس باہمی تعاون کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہوئے دیکھ بھی رہے ہیں۔ یورپی یونین کے مبصر مشن نے 2013 میں 50 سفارشات پیش کی تھیں جن میں سے 35 سفارشات کو انتخابی اصلاحات کے بل 2017 میں شامل کیا گیا۔ اسی قانون کی وجہ سے پاکستان الیکشن کمشن کو بااختیار بنانے میں مدد ملی جو اب خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے اور اپنی آزادی و خودمختاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی یونین کے الیکشن مبصر مشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کئی مشاہدات و تاثرات بیان کیے ہیں جن میں قبل از انتخابات دھاندلی، آزادی رائے اور میڈیا پر قدغنوں اور انتخابی مہم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو غیر مساوی مواقع جیسے الزامات کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ تاہم یہی رپورٹ اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ انتخابات کے دن انتخابی عمل بڑی حد تک اعلٰی معیارات کے مطابق، شفاف اور منظم تھا۔ یورپی یونین پاکستان کی گزشتہ حکومت کی طرح نئی حکومت کے ساتھ بھی، اسے پاکستانی عوام کی خواہش اور فیصلے کی نمائندہ سمجھتے ہوئے، کام کرے گی۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان کو تعاون کی پیش کش کرتے ہوئے کیا آپ پاکستانی میڈیا پر غیر معمولی دباؤ کا بھی ذکر بھی کیا جو ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹوں اور جیو ٹی وی کی بندش جیسے غیر قانونی اقدامات نیز کئی صحافیوں کے اغوا، تشدد اور دھمکیوں جیسے واقعات سے واضح ہوتا ہے؟

کوتاں: اگرچہ یورپی یونین اپنے اعلیٰ سطحی نمائندہ برائے خارجہ امور اور  ترجمان سکیورٹی پالیسی کے بیان کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے لیکن ہم پاکستان جیسے اہم اتحادی ملکوں کے ساتھ اپنے دیرپا تعلقات کے حوالے سے الزامات پر انحصار نہیں کرتے۔ اگر عملی شراکت کے اچھے ماحول میں ماہرین کو کام کرنے کا موقع ملے گا تو ہی ہمارا کام موثر اور معتبر ہو گا۔ یورپی یونین کے الیکشن مبصرین کے گزشتہ وفود کے بہتر تجربات اور انتخابی اصلاحات بل 2017 میں بیرونی مبصرین کو قانونی تحفظ ملنے کے باوجود، بدقسمتی سے بعض بیوروکریٹک وجوہات کی بنا پر ہمارا وفد بہت تاخیر سے پاکستان پہنچ سکا۔ یورپی یونین کے الیکشن مبصرین دنیا میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، کبھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرتے جو صرف مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے اور وہ کبھی قبل از انتخابات معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ یورپی یونین کے مبصر مشن کے عبوری بیان اور پھر حتمی رپورٹ کو حوالے کی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا اس ملاقات میں آپ نے یورپی یونین کے انسانی حقوق کی تحفظات کا ذکر بھی کیا جیسا کہ سزائے موت پر پابندی اور توہین مذہب بل جیسے معاملات؟ اور کیا آپ نے جی ایس پی پلس معاہدہ کی شرائط میں شامل انسانی حقوق کے 27 دستاویزات پر عمل درآمد پربھی اصرار کیا؟

کوتاں: پاکستان کو یورپی یونین کا ایک جامع تعاون حاصل ہے جو کئی باہم مربوط معاملات پر محیط ہے اور انہیں ہم آہنگ کرتا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ (جی ایس پی پلس) میں شمولیت کی درخواست کر کے پاکستان نے چار برسوں تک درآمدی محصولات کے بغیر یورپی منڈی تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے انسانی حقوق کی ستائیس دستاویزات پرعمل درآمد کا وعدہ بھی کیا ہے۔

یہ دو طرفہ تعلق پاکستان کی اندرون ملک سیاست کے نشیب و فراز سے ماورا ہے۔ نئی حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس معاہدہ کو جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس معاہدہ کے سبب پاکستانی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ ہوا اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی عالمی قانونی ذمہ داریوں کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی ہے، اگرچہ ابھی مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ ہم باہمی تعاون کے طے شدہ دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان سے سزائے موت پر پابندی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ جیسے معاملات پر مکالمہ جاری رکھیں گے۔ یہ معاملات ان انسانی قدروں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن کی ترویج کے لیے ہم کوشاں ہیں۔

ڈی ڈبلیو: حالیہ انتخابات میں کالعدم فرقہ پرست اور تشدد پسند تنظیموں کی ’مرکزی سیاسی دھارے میں شمولیت‘ اور غیر معمولی عروج کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

کوتاں: ہم دنیا بھر میں انتہا پسند نظریات کے فروغ پر پریشان ہیں۔ ہم ان نظریات سے بر سر پیکار ہیں جو تشدد، منافرت، تعصب اور مقاطعہ کا درس دیتے ہیں۔ یہ نظریات نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہمارے اپنے خطے میں بھی ناقابل قبول تشدد کا سبب بنتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام کے جمہوریت پر اعتماد اور عزم کو سراہتا ہوں جو انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دن ہونے والے دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلے۔

یورپی یونین فطری طور پر ان انتہا پسند سیاسی بیانیوں سے پریشان ہے جنہوں نے پاکستان کا سیاسی ماحول داغ دار کر دیا ہے۔ ان جماعتوں اور افراد کو حاصل ہونے والے ووٹوں پر مبنی اعداد وشمار سے صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پریشان کن حقائق پاکستان اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کے تمام تر راہ نما اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی اعلی عدلیہ اور الیکشن کمشن کے اختیار و استعداد پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو نمایاں کریں گے کہ ایسے نظریات اور بیانیوں کی آئین پاکستان کے ساتھ مطابقت ممکن نہیں۔

’پورے انتخابی عمل کے نتائج قابل اعتبار ہیں،‘ ميشائيل گالر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں