1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گجرات فسادات اور مودی: بھارت میں دستاویزی فلم پر پابندی

22 جنوری 2023

بھارتی حکومت نے برطانوی نشریاتی ادارے کی دستاويزی فلم ميں گجرات فسادات کے ليے جزوی طور پر نريندر مودی کو قصور وار قرار ديے جانے پر شديد برہمی کا اظہار کيا ہے اور فلم سميت اس کے تمام کلپس بھی بلاک کر ديے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MYRr
Indien | Feiern zum 75. Unabhängigkeitstag
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS

بھارتی حکومت نے برطانوی نشرياتی ادارے بی بی سی کی اس دستاويزی فلم، اس کے مختصر ويڈيو کلپس اور اس سے متعلق تمام ٹويٹس کو بھی داخلی سطح پر بلاک کر ديا ہے، جس ميں سن 2002 ميں گجرات ميں ہونے والے فسادات ميں موجودہ وزير اعظم نريندر مودی کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہيں۔ نئی دہلی حکومت نے اسے 'جارحانہ پراپیگنڈا اور بھارت مخالف مواد‘ قرار ديا ہے۔ اس دستاويزی فلم کے کلپس شيئر کرنا بھی ممنوع قرار دے ديا گيا ہے۔

گجرات فسادات اور مودی پر الزام

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجرات کے فسادات ميں ايک ہزار کے قريب افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثريت مسلمانوں کی پر تھی۔ نریندر مودی اس وقت اس بھارتی رياست کے وزير اعلیٰ تھے اور ان پر الزام ہے کہ وہ تشدد رکوانے ميں ناکام رہے تھے۔

نریندر مودی کے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم 'پروپیگنڈا' ہے، بھارت

گجرات فسادات میں ریپ اور قتل کے مجرمان کے خلاف اپیل خارج

جیسے مودی کو استثنٰی دیا گیا تھا، محمد بن سلمان کو بھی دیا گیا، امریکہ

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوريشن (بی بی سی) کی اس دستاويزی فلم ميں يہ الزام لگايا گيا ہے کہ گجرات میں فسادات کے وقت نريندر مودی نے مبینہ طور پر پوليس کو 'دوسری طرف دیکھتے رہنے‘ کا حکم ديا تھا۔ يہ فسادات ہندو ياتريوں کی ايک ريل گاڑی ميں آتش زدگی کے واقعے کے بعد شروع ہوئے تھے، جس ميں 59 ياتريوں کی جان چلی گئی تھی۔ اکتیس مسلمانوں کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار ديا گيا تھا۔ اسی واقعے کے بعد اس بھارتی ریاست میں مذہبی فسادات بھڑک اٹھے تھے۔

اس دستاويزی فلم ميں بی بی سی نے برطانوی وزارت خارجہ کی ايک سابقہ رپورٹ کا حوالہ بھی ديا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی نے سينئر پوليس افسران سے مل کر خود انہيں يہ حکم ديا تھا کہ وہ دائيں بازو کے ہندو گروپوں کی جانب سے مسلم مخالفت تشدد کو روکنے کے ليے مداخلت نہ کريں۔ برطانوی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ کے مطابق ''سياسی طرز کے اس تشدد کا مقصد مسلمانوں کو ہندوؤں کے علاقوں سے دور کرنا تھا۔‘‘

برطانیہ میں اس بارے میں تحقيقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا، ''تشدد کی منظم مہم ميں نسل کشی کے تمام آثار موجود تھے، جو رياستی حکومت کی جانب سے استثنیٰ کے ماحول کے بغير ممکن نہیں تھی۔‘‘

گنگا جل اب آپ کی دہلیز پر، کیا ہندتوا کا فروغ ہے؟

بھارت کا رد عمل

بھارتی حکومت کے مشير کنچن گپتا نے بائيس جنوری کو اپنی ايک ٹويٹ کے ذريعے اطلاع دی کہ انفارميشن ٹيکنالوجی کے ملکی قوانين کے تحت بھارتی حکومت اس دستاويزی فلم اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شيئر کيے گئے اس کے تمام مختصر کلپس کو بھی بلاک کر رہی ہے۔ ٹوئٹر سے 50 ايسی ٹويٹس ہٹانے کے لیے بھی کہا گيا ہے، جو صارفين کو يو ٹيوب پر اس فلم کے کلپس کی جانب لے جاتی تھيں۔ گپتا نے بتایا کہ اس سلسلے ميں ٹوئٹر اور يو ٹيوب دونوں نے بھارتی حکومت سے تعاون کيا ہے۔

نريندر مودی سن 2001 سے لے کر 2014ء ميں ملکی وزير اعظم منتخب ہونے تک گجرات کے وزير اعلیٰ تھے۔ ان پر گجرات کے فسادات کے تناظر ميں ہی کچھ عرصے کے ليے امريکا نے سفری پابندی بھی لگا دی تھی۔

سن 2012 ميں بھارتی سپريم کورٹ کی مقرر کردہ ايک خصوصی تفتيشی ٹيم نے اپنی رپورٹ ميں بطور رياستی وزير اعلیٰ مودی کو ان فسادات ميں مداخلت سے بری الذمہ قرار دے ديا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق اس بارے ميں کوئی شواہد نہيں ملے تھے کہ مودی براہ راست اس تشدد ميں ملوث تھے اور اسی ليے اس چھان بین کے بعد انہيں کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہيں کرنا پڑا تھا۔

بھارت فیک نیوز کی آماج گاہ کیسے بنا؟

ع س / م م (اے ایف پی)