1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینسر کا علاج اور نینو سائز وہیکلز

15 اپریل 2009

امریکی محققین کا کہنا ہے کہ ایک خاص قسم کے پودوں کے وائرس کے ذریعے کینسر کے علاج کے لئے دوائی کو متاثرہ حصوں تک اس طرح پہنچایا جاسکتا ہے کہ اس سے صحت مند خلیے اور ٹشوز متاثر نہ ہوں۔

https://p.dw.com/p/HX15
تصویر: das fotoarchiv

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پودوں کے ایک خاص وائرس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اینٹی کینسر ادویات کو کینسر زدہ خلیوں تک اس طرح پہنچا سکیں کہ اس دوائی کے مضر اثرات سے صحت مند سیل اور ٹشوز متاثر نہ ہوں۔ اس طرح موجودہ کیمو تھیراپی کے تکلیف دہ سائیڈ ایفکٹس سے بچا جاسکے گا۔

کیمو تھیراپی کینسر کے علاج کا ایسا طریقہ ہے جس میں ایسی دوائی کو بذریعہ انجکشن مریض کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے جس میں کینسر والے خلیوں کو بڑھنے سے روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ دوائی خون میں شامل ہونے کی وجہ سے جسم کے باقی حصوں تک بھی پہنچتی ہے لہذا یہ صحت مند خلیوں یا نظاموں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اور خاص طور پر ایسے خلیوں کو جن میں تیزی سے بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا بال، ہڈیوں کا گُودا، منہ اور جلد وغیرہ۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر کیمو تھیراپی لینے والے مریضوں کے سارے بال جھڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم پر پڑنے والے مضر اثرات کی وجہ سےاکثر مریضوں کودو خوراکوں کے درمیان اتنا وقت دیا جاتا ہے کہ ان کا جسم ریکور کرسکے۔

امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ پودوں کے ایک خاص وائرس میں تبدیلی لاکر انہیں کینسر کے علاج کی دوائی کو کینسر زدہ خلیوں تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ وائرس بہت ہی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کا کام کریں گے جن میں دوائی کو متاثرہ حصوں تک پہنچایا جاسکے گا۔ سائنسدان اس وائرس کو نینو سائز کارگو وہیکلز کا نام دے رہے ہیں۔ یعنی ایسی بہت ہی چھوٹی گاڑیاں جن میں دوائی لاد کر کینسر زدہ خلیوں تک پہنچائی جاسکے گی۔ نینو کا مطلب ایک اربواں حصہ ہوتا ہے اور لہذا ایک نینو میٹر کا مطلب ہوا ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ۔

سائنسدانوں کے مطابق دوائی پہنچانے کا یہ خصوصی نظام ایک سرخ رنگ کی گھاس جسے کلوور کہا جاتا ہے پر حملہ کرنے والا Mosiac وائرس ہے۔ جس میں قدرتی طور پر 17 نینو میٹر کی ایسی خالی جگہ ہوتی ہے جہاں کینسر کی دوائی کو رکھا جاسکتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ وائرس اب تک بنائے گئے انسانی نینو وہیکلز سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس سے بھیجی جانے والی دوائی لیک نہیں ہوتی۔

اس سے قبل چین کے سائنسدانوں نے سال دو ہزار پانچ میں ایک خاص قسم کے میٹریل سے 200 نینو میٹر کی ایسی ہی وہیکلز بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی جو کسی بھی دوائی کو جسم کے مخصوص حصے تک پہنچا سکتی تھیں۔