1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یہ بچوں کو اسکولوں میں جہاد سکھانے کا وقت ہے؟

تبصرہ: کشور مصطفیٰ، ترجمہ: عاطف توقیر5 اگست 2016

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے کہ پہلی سے بارہویں جماعتوں کے نصاب تعلیم میں جہاد سے متعلق قرآنی آیات شامل کی جائیں۔ اس کونسل کی حیثیت اور ماضی سے متعلق ڈی ڈبلیو شعبہ اردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/1Jc25
Madrassa Pakistan
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ملک بھر میں لازمی قرار دیا جائے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ تعلیمی نصاب میں جہاد سے متعلق آیات موجود نہیں ہے، جس کی تناظر میں حکومت کو کونسل نے اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔ کیا پاکستان کی وفاقی حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر عمل درآمد کی پابند ہے؟

ایک ایسے موقع پر جب تمام مسلم دنیا تشدد اور دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہی ہے، پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کا اصرار ہے کہ ملک بھر کے اسکولوں میں پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کے نصاب میں جہاد سے متعلق قرآنی آیات شامل کی جائیں۔

پاکستانی دستور کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار مشاورتی ہے۔ اس کونسل کا قیام سن 1961ء میں فوجی حکومت کے دور میں عمل میں آیا تھا، جس کے تحت حکومت کو قانون سازی کے دوران اس بابت اسلامی احکامات سے متعلق آگاہ کرنا تھا۔ تاہم اس کونسل کی تجاویز پر پابندی حکومت پر لازم نہیں۔

Madrassa in Khyber Pakhtoonkhwa
پاکستان میں ہزاروں مدرسے پہلے ہی مذہبی تعلیم دے رہے ہیںتصویر: DW/F. Khan

پاکستانی دستور کے مطابق اس کونسل میں کم از کم دو ریٹائرڈ جج جب کہ پانچ ایسے افراد شامل ہونا چاہیں، جنہیں کم ازکم پندرہ برس قرآن کی تدریس اور تحقیق کا تجربہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی معاملات کی بھی مکمل سوجھ بوجھ ہو۔ یہ بات الگ ہے کہ دستور میں درج ان شرائط کو اس کونسل کی رکنیت دینے کے وقت عموماﹰ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور اس کونسل کے ارکان عموماﹰ مذہبی اداروں سے منتخب کیے جاتے رہے ہیں۔

اس کونسل کی جانب سے سامنے آنے والی تجاویز ماضی میں نہ صرف مسترد کی جاتی رہی ہیں بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل اس کونسل کی جانب سے حکومت کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ ایسی قانون سازی کریں، جس کے تحت شوہروں کو اپنی بیویوں پر ’ہلکے پھلکے‘ تشدد کا حق حاصل ہو۔ اس تجویز کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ’جہالت‘ قرار دیا تھا۔

یہی کونسل اس سے قبل پاکستان میں آمروں کی پشت پناہی بھی کرتی رہی ہے۔ سن 1983ء میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں کونسل نے اعلان کیا تھا کہ صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے زیادہ اسلامی ہے اور اسلام میں سیاسی جماعت بنانے یا ان کا رکن ہونے کی کوئی اجازت نہیں۔

ضیاء الحق نے اسی تجویز کے تحت سن 1985ء میں ملک میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تھا، تاہم انہوں نے ملک کا پارلیمانی نظام تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی، کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس سے پاکستان بھر میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے اور ان کی مخالف میں اضافہ ہو سکتا ہے۔