1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا طالبان کے خلاف جنگ صرف فضائی بمباری سے جیتی جائے گی؟

23 دسمبر 2017

افغانستان کی جنگ اپنے 17 ویں سال میں داخل ہو رہی ہے لیکن بگرام ایئر فیلڈ کی فضاؤں میں امریکی جنگی طیاروں کے انجنوں کی اونچی آوازیں کم ہونے کے فی الحال کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

https://p.dw.com/p/2psKM
US Air Force B1-B Lancer Bomber
تصویر: picture-alliance/Photoshot/USAF

ایک مکمل شہر کے پیمانے پر بنائی گئی بگرام ایئر بیس افغان دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع ہے۔ اسی طرح کے فوجی اڈے قندہار اور جلال آباد میں بھی ہیں اور یہ اڈے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی کا مرکز ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پیشرو باراک اوباما کے برعکس افغان جنگ میں کامیابی حاصل کرنے اور اسے ’سازگار شرائط‘ کے ساتھ ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ٹرمپ نے افغانستان جنگ سے متعلق کئی ماہ پر مبنی اپنی نئی حکمت عملی کے نتائج اگست میں پیش کیے تھے۔ ان میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے امریکا کی فضائی قوت کو اس کی صلاحیتوں سے کہیں کم استعمال کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق افغانستان میں کامیابی کے لیے ’فضائی بمباری‘ کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

MQ-9 Reaper Drohne Drohnenkrieg Ziel Drohnenangriff
صرف ستمبر میں طالبان اور داعش کے خلاف فضا سے 751 بم اور میزائل حملے کیے گئےتصویر: Getty Images

صدر ٹرمپ صرف چند ہزار مزید فوجی افغانستان بھیج سکتے ہیں لیکن ایک لاکھ کے قریب امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ اب زمینی جنگ افغان فورسز لڑیں گی اور فضائی جنگ امریکیوں کے ہاتھ میں ہو گی۔

پہلے مرحلے میں افغان طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ صرف ستمبر میں طالبان اور داعش کے خلاف فضا سے 751 بم اور میزائل حملے کیے گئے۔ امریکی ایئر فورس ڈیٹا کے مطابق اکتوبر دو ہزار دس کے بعد سے کسی ایک مہینے میں یہ سب سے زیادہ فضائی حملے ہیں۔ افغانستان میں موجود ایک امریکی عہدیدار کا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’فی الحال اس کے مثبت اثرات ہیں لیکن طویل المدتی اثرات کے بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

حال ہی میں افغانستان کا دورہ کرنے والے نائب امریکی صدر مائیک پینس کا کہنا تھا کہ اس نئی اسٹریٹیجی سے طالبان کے مورال پر فرق پڑے گا۔ ان کا افغان صدر کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’ صدر اشرف غنی نے مجھے بتایا ہے کہ سن دو ہزار سترہ میں طالبان کے اتنے زیادہ سینئر لیڈر ختم کیے گئے ہیں، جتنے تمام جنگ میں نہیں مارے گئے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان اپنے مسقتل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق فی الحال ٹرمپ پالیسی کی کامیابی کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ فضائی بمباری سے سویلین ہلاکتوں کا امکان بھی بہت زیادہ رہتا ہے، جس سے طالبان کے ساتھ ہمدردیاں اور امریکا کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے۔ ’لانگ وار جرنل‘ کے مطابق اب بھی ملک کا پینتالیس فیصد حصہ طالبان کنٹرول کرتے ہیں۔ سن 2014 میں نیٹو مشن ختم ہونے کے بعد کرپشن کی شکار افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بھی انتہائی اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے عہدیدار اس امید میں بھی ہیں کہ طالبان کی صفوں میں دراڑیں پیدا ہوں گی اور ان کے زیادہ اراکان مذاکرات کی طرف آنے پر آمادہ ہوں گے۔