1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کُرد گروپ نے استنبول بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی

علی کیفی
11 دسمبر 2016

کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)  سے علیحدہ ہو جانے والے ایک عسکری گروپ نے استنبول میں ہونے والے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جن کے نتیجے میں کم از کم 38 افراد ہلاک اور 155 زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2U5uV
Türkei Istanbul nach den Anschlägen
تصویر: Reuters/M. Sezer

کرد علیحدگی پسند گروپ ’ٹی اے کے‘ کی ایک ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں استنبول میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی گئی ہے۔ ہفتے کی رات ہونے والے دہرے بم دھماکوں میں کم از کم اڑتیس افراد ہلاک جب کہ 155 زخمی ہو گئے تھے۔ ٹی اے کے ایک ایسا عسکری گروپ ہے جو کردوں کی مشہور ’کردستان ورکرز پارٹی‘ ( پی کے کے) سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ رواں برس یہ گروپ ترکی میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔ 

ترکی کی چوٹی کی فٹ بال ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے ایک میچ کے فوراً بعد ہونے والے ان دھماکوں کا ہدف پولیس اہلکار تھے۔ بتایا گیا ہے کہ پہلے استنبول کے ووڈافون ارینا کے باہر ایک کار بم دھماکا ہوا اور کار کا تباہ شُدہ ملبہ شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔

نائب وزیر اعظم نعمان کُرتُلمُوس نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ اس کے پنتالیس سیکنڈ بعد ہی ایک قریبی پارک میں ایک مشتبہ شخص نے، جسے پولیس نے گھیر رکھا تھا، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ان دھماکوں کے باعث مرنے والوں کی تعداد 38 تک بتائی جا رہی ہے۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ زیادہ تر مرنے والے پولیس اہلکار تھے تاہم کچھ عام شہری بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

صدر رجب طیب ایردوآن نے ان دھماکوں کو شہریوں اور پولیس کے خلاف دہشت گردی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے فٹ بال میچ کے دو گھنٹے بعد، جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں شائقین گئے تھے، اس طرح کے دھماکے کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ  انسانوں کو موت کی نیند سُلانا تھا۔

ایردوآن کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے:’’کسی کو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم خدا کے فضل سے ایک ملک اور ایک قوم کے طور پر دہشت گردی، دہشت گرد تنظیموں اور اُن کے پیچھے کارفرما قوتوں کا قلع قمع کریں گے۔‘‘

Türkei Explosion in Istanbul
استنبول میں دھماکوں کے فوراً بعد کا ایک منظرتصویر: Reuters/M. Sezer

اس تازہ حملے نے فٹ بال کی دیوانی ایک ایسی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو ابھی اس سال کے دوران استنبول اور دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے متعدد خونریز حملوں کے اثرات سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اب تک کے ان حملوں میں سے کچھ کے لیے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو قصور وار قرار دیا گیا جبکہ دیگر کی ذمہ داری کُرد عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔

فٹ بال اسٹیڈیم کے سامنے ہی سڑک کے دوسری جانب واقع ایک مسجد میں صفائی کا کام کرنے والے عمر یِلماز نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا:’’یہ جہنم کا منظر تھا۔ شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ مَیں اُس وقت مسجد کے ساتھ ہی ایک کیفے میں چائے پی رہا تھا۔ لوگ میزوں کے نیچے چھُپ گئے، خواتین نے آہ و بکا شروع کر دی۔ کیفے میں چائے پینے والے فٹ بال شائقین بھی آڑ میں چلے گئے، یہ بہت خوفناک تھا۔‘‘

ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی قیادت میں سرگرم فوجی اتحاد میں بھی شامل ہے اور اس حیثیت میں وہ ہمسایہ ملک شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ ترک فوجیں اس سال اگست سے شامی سرزمین کے اندر داخل ہو کر اس شدت پسند تنظیم کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ترکی خود اپنی سرزمین پر بھی کُرد عسکریت پسندوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے ان دھماکوں کو ’دہشت گردی کی ہولناک کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ یورپی رہنماؤں نے بھی یک جہتی کے پیغامات روانہ کیے ہیں۔ امریکا نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے حلیف نیٹو ملک کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ مہینے قبل پندرہ جولائی کو ترکی میں ایک بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا تھا اور اُس دوران 240 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تب زیادہ تر ہلاکتیں استنبول ہی میں ہوئی تھیں۔ اس سال جون میں استبول ایئر پورٹ پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے تین مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے کی گئی فائرنگ اور بم دھماکوں کے نتیجے میں تقریباً پنتالیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔

Infografik Karte Anschläge in der Türkei Englisch